مطیع اللہ جان کو رہائی مبارک ہو۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے ساتھی اتنے با ہمت اور حوصلے والے ہیں کہ ان کے لئے آواز اٹھانے سے نہ ڈرے۔ ان سب نے مل کر پرزور احتجاج کیا اور چند گھنٹوں کے اندر انہیں بازیاب کرا لیا۔ ہمیں لبرلز کو اس بات پر داد دینا تو بنتی ہے کہ وہ تعداد میں قلیل ہیں لیکن ان کا آپس میں بہت اتحاد ہے اور وہ پوری جرأت کے ساتھ اپنی بات پیش کرتے ہیں۔ ان کا کوئی بندہ غائب ہو تو وہ فورا آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں اور اس معاملے کو بین الاقوامی ایشو بنا دیتے ہیں، نتیجتا اداروں کو ان کا بندہ ایک دو دن کے اندر چھوڑنا پڑ جاتا ہے۔
دوسری طرف اسلام پسندوں کا رویہ یہ ہے کہ ان کا کوئی بندہ غائب ہو تو لوگوں کی اکثریت کو تو سانپ سونگھ جاتا ہے اور وہ کچھ بولتے ہی نہیں۔ مخالف فرقے والے خوش ہوتے ہیں کہ اچھا ہوا کہ ایک فتنہ کم ہوا، اور بعض لوگ "کچھ تو کیا ہو گا" کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جرأت کا مظاہرہ کر کے احتجاج کرتے ہیں اور اس بندے کی رہائی کے لئے مہم چلاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام پسند بندہ جب اٹھایا جاتا ہے تو وہ کئی کئی مہینے کئی کئی سال حبسِ بیجا میں پڑا رہتا ہے۔ نہ اس پر کوئی فردِ جرم عائد ہوتی ہے، نہ اس کے خلاف کوئی ثبوت ہوتا ہے، اور نہ اسے کسی عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کا واحد جرم جو ثابت کیا جاتا ہے وہ جرمِ ضعیفی ہوتا ہے اور وہ بیچارہ اس جرم کی سزا بھگتتا رہتا ہے۔ پیچھے اس کے والدین اور بیوی بچوں کی جو حالت ہو رہی ہوتی ہے وہ بیان نہیں کی جا سکتی۔
ایک بار جب دوستوں میں لبرلز اور اسلام پسندوں کے اس متضاد رویے پر بات ہوئی تھی تو کسی نے کہا تھا کہ دراصل لبرلز کو مغربی طاقتوں کی پوری سپورٹ حاصل ہے، انہیں معلوم ہے کہ اگر انہیں اٹھایا بھی گیا تو باہر سے اتنا پریشر آنا ہے کہ انہوں نے فورا رہا ہو جانا ہے۔ اس پر میں نے کہا تھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ لبرلز کو جتنا مغربی طاقتوں کی سپورٹ پر بھروسہ ہے، اتنا ہمیں اللہ تعالٰی کی سپورٹ پر بھروسہ نہیں۔