بنی اسرائیل کو گائے کی قربانی کا حکم کیوں دیا گیا؟


سورۃ البقرۃ پڑھتے ہوئے خیال آ رہا تھا کہ اللہ تعالٰی نے بنی اسرائیل کو گائے ہی قربان کرنے کا حکم کیوں دیا؟ بکرا ، دنبہ یا کوئی اور جانور بھی تو قربان کیا جا سکتا تھا۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری پھیری تواللہ تعالٰی نے حضرت اسمٰعیل کی جگہ پر جنت کا ایک مینڈھا رکھ دیا اور وہ مینڈھا ذبح ہوا۔ لیکن بنی اسرائیل کو بہ اصرار گائے قربان کرنے کا حکم ہوا اور ان کےحیلے بہانے کے باوجود اس حکم میں کوئی نرمی نہیں کی گئی بلکہ حکم کی سختی بڑھتی ہی چلی گئی۔

اس کی وجہ یہ سمجھ آتی ہے کہ یہ بنی اسرائیل ہی تھے جنہوں نے طلائی بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا تھا۔ گویا بچھڑے کو ان کے ہاں ایک مقدس حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ بنی اسرائیل کے لئے گائے کی قربانی کرنا اتنا ہی مشکل تھی جتنا آج ایک ہندو کے لئے ہو گی۔

جب اس قوم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا لیا تو انہیں عقیدۂ توحید میں واپس لانے کے لئے اللہ نے ان پر ایک گائے کی قربانی فرض دی۔ اس فرض کو پورا کرنے میں انہوں نے جتنا لیت و لعل سے کام لیا وہ اتنا ہی اس بات کا ثبوت تھا کہ دل میں بچھڑے کی محبت اب بھی موجود ہے۔ لہذا اللہ نےان کے لئے اس فرض کی ادائیگی کی شرائط کو اور بھی دشوار کر دیا۔ مقصد اس کا یہ تھا کہ لوگوں کے دلوں کے اندر جو بت کدہ آباد ہے اسے جڑ ختم کر دیا جائے۔ آخرکار اللہ نے ان پر مہربانی کی اور وہ اپنے بت کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

کسی بھی قوم میں شرک کی جڑ کاٹنے کا یہ سب سے مؤثر طریقہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ہاتھوں سے سب کے سامنے اپنے جھوٹے خداؤں کو ختم کریں۔