یہ سنہ ۲۰۱۴ء کی بات ہے۔ جب مجھے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے لئے جاپانی حکومت کی طرف سے وظیفہ ملا تھا اور میں جاپان جانے کے لئے اپنا سامان باندھ رہا تھا تو میرے گھر والوں نے میرے توشے میں جو کتابیں شامل کیں تھیں، ان میں سے ایک یہ بھی تھی۔ حصن المسلم۔ مجھے یاد ہے کہ میرے والد خصوصی طور پر جاپان لے جانے کے لئے اس کا ایک نیا نسخہ خرید کر لائے تھے۔
حصن المسلم کے معنی ہیں مسلمان کا قلعہ۔ یہ قلعہ مسلمان کے ایمان کی حفاظت کے لئے ہے۔ ایمان ہماری سب سے قیمتی متاع ہے جس پر ہماری اخروی کامیابی کا دارومدار ہے۔ گویا مسلمان کے دین و ایمان کی حیثیت ایک خزانے کی سی ہے جس کی اسے ہر لمحہ حفاظت کرنا ہوتی ہے اور اسے دشمنوں سے بچانا ہوتا ہے۔ اس خزانے کے درپے دشمن بہت سے ہیں۔ مثلاً انسان کا نفس، معاشرے میں پھیلی برائیاں اور فواحشات، اور سب سے بڑھ کر شیطان لعین جس کی زندگی کا مقصد ہی صرف یہ ہے کہ وہ کسی طرح اولادِ آدم کو گمراہ کر دے اور اسے ایمان کے خزانے سے محروم کر ڈالے۔
اس قلعے کے کئی حصار ہیں۔ سب سے اندرونی اور سب سے اہم حصار فرائض کا ہے۔ اس کے بعد اگلا حصار سنتوں کا ہے۔ اور سب سے بیرونی حصار نوافل کا ہے۔ یاد رکھیں کہ دشمن کا حملہ سب سے پہلے بیرونی حصار پر ہوتا ہے۔ اگر آپ کے نوافل قائم ہیں تو وہ اندر کے دونوں حصاروں کا بھی دفاع کریں گے اور آپ کا خزانہ محفوظ رہے گا۔ لیکن اگر نوافل قائم نہ رہے تو اگلا حملہ سنتوں پر ہو گا۔ آپ نے سنت چھوڑ دی تو پھر آپ کا آخری دفاعی مورچہ، آپ کی لاسٹ لائن آف ڈیفنس آپ کے فرائض ہیں۔ جب آپ کے فرائض بھی چھوٹنے لگ جائیں تو جان لیں کہ دشمن کامیاب ہو چکا اور اب آپ کا خزانہ لٹ رہا ہے۔
انسان اپنے روزمرہ کے معمولات اور فکرِ معاش میں اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اپنے خزانے کی حفاظت سے غافل ہو جاتا ہے۔ اس کے لئے الله تعالٰی نے پنج وقتہ نماز کا نظام دیا تاکہ انسان چند گھنٹوں بعد الله تعالٰی کے حضور پیش ہوتا رہے اور ذکرِ الٰہی سے اپنا ایمان مضبوط کرتا رہے۔ معاشرے میں برائیوں کی جو آلودگی پھیلی ہوئی ہے، اس کی وجہ سے انسانی قلب پر غفلت کی گرد پڑتی رہتی ہے۔ نماز قلبِ مسلم کو اس گرد سے پاک کر کے اسے پھر سے صاف اور شفاف بنا دیتی ہے۔ نماز ہمارے قلعے کا پہلا حصار ہے۔
پنج وقتہ نماز کے علاوہ رسول الله صلی الله علیه وسلم نے ہمیں روزمرہ زندگی کے ہر عمل کے متعلق کچھ دعائیں سکھائی ہیں۔ صبح جب آپ سو کر اٹھتے ہیں تو اس کی دعا ہے، بیت الخلاء میں جانے اور اس سے نکلنے کی دعا ہے، آئینہ دیکھنے کی دعا ہے، کھانا شروع کرنے اور کھانا ختم کرنے کی دعا ہے، گھر سے نکلنے اور گھر میں داخل ہونے کی دعا ہے۔ غرض روزمرہ زندگی کے ہر معاملے کے متعلق دعا موجود ہے۔ جب انسان ان دعاؤں کا اہتمام کرتا ہے تو گویا وہ ہر کام کے وقت الله کو یاد کرتا ہے اور اس پر غفلت طاری نہیں ہوتی۔ یوں وہ اپنے قلعے کا دوسرا حصار تعمیر کر لیتا ہے۔
اگر آپ اس سے زیادہ حفاظت چاہتے تو پھر نوافل اور اذکار کے ذریعے آپ کو تیسرا حصار قائم کرنا ہو گا۔ انسان کے ایمان کی حفاظت کی کامل ترین شکل یہ ہے کہ وہ اپنے فارغ اوقات کو الله تعالٰی کے لئے وقف کر دے اور فاذا فرغت فانصب والٰی ربك فرغب کی عملی تفسیر بن جائے۔ اپنے فرائض منصبی سے فراغت حاصل کرنے کے بعد، فکرِ معاش کے جھمیلوں سے آزاد ہونے کے بعد جو وقت بچے اسے الله کی یاد میں وقف کر دے۔
حصن المسلم ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت کے یہ تین حصار قائم کرنے کا طریقہ بتاتی ہے۔ اس میں مسنون نماز بھی ہے، مسنون دعائیں بھی اور مسنون اذکار بھی۔ ہر دعا اور ذکر کا احادیث کی کتب سے حوالہ اسی صفحے کے نچلے حصے پر موجود ہے۔ مجھے اس کتاب کی یہ بات بہت اچھی لگتی ہے کہ اس میں کوئی خود ساختہ ذکر شامل نہیں اور نہ کسی ذکر کی خود ساختہ گنتی ہے۔ بلکہ ہر عمل، ہر ذکر اور ہر عدد اسی طرح بیان ہوا ہے جیسے رسول الله صلی الله علیه وسلم کیا کرتے تھے۔ میں اسے طریقتِ محمدی سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک تزکیۂ نفس کا اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ میں رسول الله صلی الله علیه وسلم کی بتائی ہوئی صراطِ مستقیم پر چلنا چاہتا ہوں۔ یہ مرکزی شاہراہ ہے، یہ مین ہائی وے ہے۔ میں اور لوگوں کی بنائی ہوئی پگڈنڈیوں پر چل کر اِدھر اُدھر ٹھوکریں نہیں کھانا چاہتا۔
اس کتاب کے مصنف شیخ سعید بن علی القحطانی ہیں جن کی وفات اکتوبر ۲۰۱۸ء میں ہوئی تھی۔ جبکہ اس کے اردو کے مترجم حافظ صلاح الدین یوسف ہیں جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ الله تعالٰی ان دونوں بزرگوں کے درجات بلند فرمائیں، اس کتاب کو ان کے لئے صدقۂ جاریہ بنا دیں اور ہمیں ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق دیں۔ آمین