پاکستان سٹاک ایکسچینج پر حملے کے دو منفی ردعمل


پاکستان سٹاک ایکسینج پر حملے کے بعد مجھے پاکستان قوم متحد نظر آئی۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ لوگوں نے اس حملے کی شدید مذمت کی اور سکیورٹی فورسز کی شاندار کارکردگی کی تعریف کی۔ بلا شبہ یہ ہمارے اداروں کی بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے یہ حملہ ناکام بنایا اور آٹھ منٹ کے اندر چاروں دہشت گردوں کو ڈھیر کر دیا۔ ہماری فورسز کی بہادری اور مہارت کی وجہ سے ہم ایک بڑے نقصان سے محفوظ رہے۔ یہ الله تعالٰی کا ہم پر بہت کرم ہے۔ اس کارکردگی پر اس آپریشن میں شامل اہلکار بجا طور پر داد اور انعام کے مستحق ہیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر عوام کا جو ردعمل میں نے دیکھا ہے، اس میں سے دو باتیں مجھے بہت کھٹک رہی ہیں۔ 

(۱) گمشدہ افراد کے لئے آواز اٹھانے والوں کو یہ طعنے دینا کہ تمہارے گمشدہ لوگوں میں سے چار افراد مل گئے ہیں۔ 
جہاں یہ بات درست ہے کہ گمشدہ لوگوں میں وہ لوگ بھی موجود ہیں جنہیں کسی نے غائب نہیں کیا بلکہ وہ خود روپوش ہو گئے اور دہشت گردی کی کاروائیوں میں حصہ لیتے رہے، وہاں یہ بات بھی اتنی ہی درست ہے کہ ہمارے خفیہ اداروں نے بہت سے معصوم اور بے گناہ افراد کو اغوا کر کے حبسِ بیجا میں رکھا ہوا ہے۔ ان کی گمشدگی کو کئی کئی مہینے اور سال گزر جاتے ہیں، ان کا کوئی جرم ثابت نہیں ہوتا لیکن ان کی رہائی عمل میں نہیں آتی۔ ان لوگوں کے گھر والے اور دوست احباب پیچھے جس کرب سے گزر رہے ہوتے ہیں، اس کا اکثر لوگوں کو اندازہ نہیں ہوتا۔ ایسے کئی کیسز کامجھے ذاتی طور پر علم ہے۔ جرم ثابت کئے بغیر کسی کو سزا دینا انتہائی ظالمانہ فعل ہے۔ ایسے لوگوں کی رہائی کے لئے آواز اٹھانا ہمارا فرض ہے۔ اور ایسے لوگوں کو دہشت گردوں کے ساتھ ملانا بہت تکلیف دہ بات ہے۔ 

(۲) بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والوں کو دہشت گردوں کا ساتھی قرار دینا۔ 
اس امر سے کوئی ذی شعور پاکستانی انکار نہیں کر سکتا کہ بلوچستان کا بیشتر حصہ انتہائی پسماندہ اور غریب علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہ صوبہ قدرتی وسائل سے مالامال ہے لیکن ان وسائل کے ثمرات اس صوبے کے عام آدمی تک نہیں پہنچ پاتے۔ اس بات کا ذمہ دار آپ چاہیں بلوچ سرداروں کو قرار دیں یا پاکستان کی حکومتوں کو، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بلوچستان کے لوگوں کو ان کے حقوق نہیں مل رہے۔ انہیں ترقی کی دوڑ میں شامل کرنا اور بلوچستان کو ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لانا ہماری ذمہ داری ہے۔ بلوچستان کے مظلوموں کی بات سنیں، ان کی آواز میں آواز ملائیں، ان کے جائز حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں ان کا ساتھ دیں۔ انہیں دہشت گردوں کا ساتھی قرار دے کر ان کی حوصلہ شکنی مت کریں۔

پسِ نوشت: 
یہ تحریر دلیل ڈاٹ پی کے پر ۳۰ جون ۲۰۲۰ء کو شائع ہو چکی ہے۔