یہ ہم کس طرف چل پڑے ہیں؟

کچھ دن پہلے دو بھارتی اداکاروں کا انتقال ہوا تھا۔ پورے سوشل میڈیا پر وہ صفِ ماتم بچھ گئی تھی کہ لگتا تھا جیسے ہمارا کوئی قومی ہیرو ہم سے جدا ہو گیا ہے۔ ہمارے خبرناموں میں ان کے انتقال کی خبر کو چلایا گیا اورانہیں خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اوراب جبکہ کشمیر کے ایک بڑے مجاہد شہید ہوئے تو ڈھونڈنے پر بھی مجھے سوشل میڈیا پر اکا دکا پیغامات ہی نظر آئے ہیں۔ ہر سُو خاموشی سی چھائی ہوئی ہے گویا کوئی قابلِ ذکر واقعہ نہیں ہوا۔


ایک طرف وہ تھے جن کی زندگی ناچ گانے میں اور ایسی فلمیں بنانے میں گزری جن میں پاکستان مخالف پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا۔ اور دوسری طرف وہ تھے جو بے سروسامانی کے عالم میں بھی قابض فوج کو ناکوں چنے چبھواتے رہے، الله اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے رہے، اور پھر الله کی راہ میں اپنی جان تک قربان کر گئے۔ ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر خود سے پوچھیں کہ آپ کو ان دونوں میں سے کس سے زیادہ محبت ہے؟ کون آپ کی داد و تحسین کا زیادہ حقدار ہے؟ کس کی زندگی و موت بامقصد تھی؟ الله تعالٰی کے ہاں کامیاب کون ہو گا؟ اور ہم کس کو اپنا ہیرو سمجھتے ہیں؟؟


یہ ہم کس طرف چل پڑے ہیں؟ ابھی ہم راجہ داہر اور محمد بن قاسم پر جھگڑ رہے تھے کہ ہمارا اصل ہیرو کون ہے۔ اس قصے کو تو ۱۳۰۰ سال ہو گئے اور اس پر تاریخ کی بہت گرد پڑ چکی ہے۔ لیکن یہ واقعہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے نا! آج ہم اپنے عمل سے کسی کو اپنا ہیرو ثابت کر رہے ہیں؟ ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں؟ جب ہمارے دلوں میں اداکار اور گلوکار بستے ہیں اور ہمارے گھروں میں صبح وشام انہی کا تذکرہ ہوتا ہے تو پھر ہماری قوم کے اندر بھی اداکار اور گلوکار ہی پیدا ہوں گے نا! ہم یہ توقع کیسے کر سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی ٹیپو، کوئی ایوبی، کوئی غزنوی اور کوئی بن قاسم پیدا ہو۔


گندم از گندم بروید جو زِ جو
گندم بونے پر گندم ہی ملتی ہے۔ اور جو بونے سے جو ہی ملیں گے۔