کیا ہم قرآن خود سے پڑھ کر سمجھ سکتے ہیں؟


بہت حیرت ہوتی ہے جب پاکستان میں بیٹھے کسی نوجوان کو ایسی بات کہتے سنتا ہوں کہ ہمیں قرآن خود پڑھ کر سمجھنا کافی ہے، اس کے لئے کسی اور کتاب یا استاد کی ضرورت نہیں۔

ارے بھائی! پہلی بات تو یہ کہ عربی آپ کو آتی نہیں۔ آپ نے قرآن کا ترجمہ ہی پڑھنا ہے۔ لہذا اللہ کی کتاب کو براہِ راست سمجھنے کے لئے جن انسانی واسطوں سے آپ بچنا چاہ رہے ہیں، ان سے بچنا تو آپ کے لئے ممکن نہیں۔ آپ کے اور قرآن کے بیچ میں مترجم کا واسطہ تو ہمیشہ موجود رہے گا۔ اور قرآن کا ترجمہ خود قرآن نہیں ہے بلکہ یہ قرآن کی ترجمانی ہے مترجم کی زبان میں۔ اس میں غلطی کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ کوئی مترجم کبھی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ اس نے کتاب کا مضمون مکمل طور پر اسی پیرائے میں من وعن بیان کر دیا ہے جیسے مصنف چاہتا تھا۔ ایسا ہونا تو انسان کی لکھی ہوئی کتابوں میں بھی بہت مشکل ہے۔ قرآن کریم جیسی آفاقی کتاب کے لئے تو یہ بالکل ناممکن ہے۔

دوسری بات یہ کہ خود سے پڑھ کر تو آپ فزکس کیمسٹری وغیرہ کی کورس کی کتابیں نہیں سمجھ پاتے۔ انہیں پڑھنے کے لئے تو آپ اچھے سے اچھا سکول ڈھونڈتے ہیں۔ طرح طرح کی گائیڈ بکس اور لیکچر نوٹس خریدتے ہیں۔ سکول کے استاد سے تسلی نہیں ہوتی تو ٹیوشن کے لئے ٹیوٹر ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ پھر قرآن کریم پڑھنے کے لئےکسی عالم کے پاس جانے اور تفاسیر کا مطالعہ کرنے پر اعتراض کیوں؟ فزکس کیمسٹری کے ساتھ تو آپ یہ سلوک نہیں کرتے کہ خود سے پڑھ کر جو مجھے جیسا سمجھ آیا وہ ٹھیک اور باقی سب غلط۔ پھر اللہ کے دین ساتھ ایسا رویہ کیوں؟

تیسری بات یہ کہ قرآن نازل ہوا خود صحابہ کرام کی زبان میں، اور نازل ہوا صحابہ کے زمانے میں۔ اس وقت کے حالات، واقعات اور اعتقادات سے وہ بخوبی واقف۔ قرآن خود سے پڑھ کر سمجھنے کے قابل کوئی تھا تو وہ تھے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھنے اور اس کا مطلب سمجھنے کے لئے آتے تھے، بلکہ صحابہ کرام میں بھی زیادہ علم رکھنے والوں سے دوسرے صحابہ سیکھتے تھے۔ یہی سلسلہ اگلی نسلوں میں بھی چلتا رہا۔ تابعین نے صحابہ سے سیکھا، تبع تابعین نے تابعین سے، تبع تابعین سے ان کی اگلی نسل نے اور یوں یہ سلسلہ ہم تک پہنچا۔کسی نے خود کو عقلِ کُل قرار نہیں دیا۔ کسی نے خود کو اس قابل نہ سمجھا کہ مجھے قرآن خود سے پڑھ کر سمجھ لینا کافی ہے۔

پسِ نوشت: یہ تحریر دلیل ڈاٹ پی کے پر ۳۰ اپریل ۲۰۲۰ء کو شائع ہو چکی ہے۔ https://daleel.pk/2020/04/30/138651