مارُوموری میں ایک دن


مارُوموری میں سکول کے بچے سیلاب اتر جانے کے بعد سڑک سے کیچڑ صاف کر رہے ہیں۔ تصویر بشکریہ کیودو بذریعہ ریوٹرز

آج ۱۳ نومبر ۲۰۱۹ء ہے۔ ٹائفون ہاگیبِس کو گزرے آج پورا ایک مہینہ ہو چکا ہے۔ یہ ٹائفون جاپان کی تاریخ کی بدترین آفات میں سے ایک ثابت ہوا اور اس نے ملک کے ایک بڑے حصے میں تباہی مچائی (مزید تفصیلات کے لئے میرا بلاگ ٹائفون ہاگیبِس کا آنکھوں دیکھا حال ملاحظہ کریں)۔ ابھی تک اس ٹائفون سے ہونے والے نقصانات کا مکمل تخمینہ نہیں لگایا جا سکتا۔ جاپان کی مختلف وزارتوں نے اپنے نیچے آنے والے محکموں میں نقصانات کے اندازے پیش کئے ہیں۔ مثلا محکمہ زراعت کے مطابق اس طوفان سے زراعت، ماہی گیری اورجنگلات کو ہونے والے نقصانات کا تخمینہ ۲،۸ بلین ڈالر ہے۔ جبکہ وزارتِ صنعت کا کہنا ہے کہ اس طوفان نے چھوٹے اور متوسط کاروبار کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے اور انہیں ہونے والے نقصانات کا تخمینہ ۴،۴ بلین ڈالر لگایا گیا ہے(۱)۔ جاپان کے ۴۷ پریفیکچر ہیں، ان میں سے سب سے زیادہ نقصان فُوکُوشیما پریفیکچر میں ہوا جہاں ۹۸۰ ملین ڈالرنقصان کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر میرا پریفیکچر میاگی رہا جہاں ۸۹۰ ملین ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے (۱

میاگی کا قصبہ مارُوموری اس طوفان سے متاثرترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ ٹائفون ہاگیبِس کی وجہ سے اس قصبےکے ۱۰ افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ ایک شخص ابھی تک لاپتہ ہے۔ قصبے کےتقریبا ۳۱۸۵ افراد سیلاب سے تباہ حال مکانوں میں رہ رہے ہیں۔ یہ قصبے کی کل آبادی کا ۲۰ فیصد ہیں (۲)۔ مارُوموری کی مقامی انتظامیہ نے بحالی کے کاموں کے لئے رضاکاروں کی اپیل کی ہے۔ اس اپیل پر لبیک کہتے ہوئے سینکڑوں افراد نے مارُوموری کا رخ کیا۔ ہفتہ وار چھٹیوں میں رضاکاروں کی تعداد ۳۲۰۰ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ لیکن کام اتنا زیادہ ہے کہ یہ تعداد بھی ناکافی محسوس ہوتی ہے (۳)(۴) ۔ 

مارُوموری کا قصبہ میرے شہر سندائی سے تقریبا ۵۰ کلومیٹر دور ہے۔ مجھے جب اس قصبے میں ہونے والے نقصانات اور بحالی کے لئے رضاکاروں کی ضرورت کا علم ہوا تو میں نے بھی ارادہ کیا کہ بطور رضاکار جا کر ادھر لوگوں کی مدد کی جائے۔ مجھے یہ خبر ملی کہ سندائی مسجد کمیٹی کے صدر محمد ساتو بھی بطور رضاکار مارُوموری میں جا کر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ میں نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ اگر ممکن ہو تو وہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ادھر جانے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے آپ رضاکار انشورنس کرا لیں۔ اس کے بغیر آپ کو وہاں کوئی کام نہیں کرنے دے گا۔ یہ انشورنس ۵۰۰ ین دے کر کرائی جا سکتی ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ کام کے دوران آپ کو کوئی چوٹ لگ جائے یا آپ کسی انفیکشن کی وجہ سے بیمار ہوجائیں تو اس انشورنس سے آپ کا علاج معالجہ کرایا جا سکے۔ یہ انشورنس ایک سال تک کے لئے کارآمد ہے۔ دوسری نصیحت انہوں نے مجھے یہ کی کہ چونکہ وہ خود تو ریٹائرڈ ہیں، اس لئے وہ ہفتے کے کسی بھی دن وہاں چلے جاتے ہیں، لیکن میں چونکہ طالب علم ہوں، اس لئے مجھے ہفتہ وار چھٹیوں کا انتظار کرنا چاہیئے۔

میں نے ساتو سان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے اسی رات آن لائن اپنی انشورنس کرا لی۔ اس سے اگلے ہی دن مجھے ایک ای میل موصول ہوئی کہ میری یونیورسٹی کا رضاکار کلب طلباء کو مارُوموری لے کر جائے گا۔ میں نے جھٹ اس کا فارم پُر کر کے اس کے لئے اپلائی کر دیا۔ میں نے اس فارم میں اپنے مارُوموری جانے لئے ۱۰ نومبر بروز اتوار کا انتخاب کیا تھا۔ اس کے دو دن بعد مجھے بذریعہ ای میل ٹوہوکُو یونیورسٹی رضاکار کلب کا جواب آ گیا کہ آپ کو مارُوموری جانے کے لئے منتخب کر لیا گیا ہے، آپ ۱۰ نومبر کو صبح ساڑھے سات بجے یونیورسٹی پہنچ جائیں، جہاں سے آپ کو بس میں بٹھا کر مارُوموری لے جایا جائے گا۔ انہوں نے ہدایت کی اپنے ساتھ دستانے، حفاظتی ماسک، تولیہ، دوپہر کا کھانا، مشروبات اورطبی انشورنس کارڈ لے کر آئیں۔ ہمیں یہ بھی کہا گیا کہ کپڑے ایسے پہن کر آئیں جن کے گندے ہو جانے پر آپ کو کوئی مسئلہ نہ ہو اور کپڑوں کا ایک اضافی جوڑا بھی لے کر آئیں تاکہ کام ختم ہونے پر آپ کپڑے تبدیل کر کے صاف کپڑوں میں واپس جائیں۔ ہمیں لمبےجوتے (لونگ بُوٹس) پہن کر آنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی لیکن انہوں نے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ اگر آپ کے پاس نہ ہوں تو ایک محدود تعداد میں ہمارے پاس لونگ بُوٹس موجود ہیں اور آپ انہیں ہم سے ایک دن کے لئے مستعار لے سکتے ہیں۔ جن لوگوں نے رضاکار انشورنس نہ کرائی ہو انہیں موقع پر انشورنس کرانے کی سہولت بھی مہیا کی گئی تھی۔

۱۰ نومبر کو میں وقتِ مقررہ پر یونیورسٹی پہنچ گیا۔ رجسٹریشن کرائی اور ایک کتابچہ وصول کیا جس میں رضاکارانہ سرگرمیوں کے متعلق ہدایات درج تھیں۔ ہمارا گروپ ۲۷ رضاکاروں پر مشتمل تھا جس میں ٦ لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ رجسٹریشن کے بعد ہم سب کو رضاکار کلب کے دفتر لے جایا گیا جہاں سے ہم نے لمبے جوتے ادھار لئے اور ہر رضاکار کو ایک ایک کدال بھی مہیا کی گئی۔ اس کے بعد ہم یہ سب سامان اٹھائے بس میں بیٹھ گئے اور مارُوموری کی جانب عازمِ سفر ہوئے۔ ۵۰ کلومیٹر کا سفر دیکھتے ہی دیکھتے گپ شپ کرتے اور رستے کے مناظر سے دل بہلاتے ایک گھنٹے میں کٹ گیا۔ راستے میں ایک جگہ ہم تھوڑی دیر ایک سہولت سٹور (کنوینینس سٹور) پر رکے جہاں سے ہم نے اپنے لئے ناشتے کا سامان لیا۔ میں نے اپنے لئے حلال سینڈوچ کا انتخاب کیا۔ باقی رستہ ناشتہ کرتے گذر گیا اور ہم تقریبا نو بجے مارُوموری پہنچ گئے۔

سندائی سے مارُوموری جاتے ہوئے دیہی جاپان کا ایک منظر
مارُوموری پہنچتے ہی اس قیامت کا اندازہ ہونا شروع ہو گیا جو اس قصبے پر گزر چکی تھی۔ مارُوموری کے قریب سے ابُوکُوما دریا گزرتا ہے ۔ کئی مقامات پر جب ہماری سڑک اس دریا کے پاس سے گزرتی، ہمیں یہ اندازہ ہو جاتا کہ اس جگہ سے دریا اپنے بند توڑ کر آبادی میں داخل ہوا ہے اور تباہی مچاتا گزرا ہے۔ کئی مقامات پر زمین کٹاؤ کا شکار تھی اور دریااپنی طغیانی کے زور پر پورے پورے قطعے بہا کر لے گیا تھا۔
مارُوموری کا ایک فضائی منظر جہاں دریائے ابُوکُوما بند توڑ کر آبادی میں داخل ہو گیا تھا۔ تصویر بشکریہ اے-ایف-پی، ۱۳ اکتوبر ۲۰۱۹ء
مارُوموری کے قریب ایک مقام جہاں دریائے ابُوکُوما کی طغیانی کے باعث زمین کا کٹاؤ واضح ہے 
پہلے ہم مارُوموری کے رضاکار سینٹر پہنچے جہاں ہمیں بتایا گیا کہ آج ہماری ڈیوٹی ایک گھر سے کیچڑ صاف کرنے کی ہے۔ دراصل یہاں سے سیلاب تو گزرچکا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باقی رہ جانے والا پانی بخارات بن کر اڑتا جا رہا ہے۔ لیکن اس وقت یہاں کا سب سے بڑا مسئلہ کیچڑ ہے جو رستوں اور گھروں کے اندر کئی کئی فٹ تک موجود ہے۔ سیلابی پانی اپنے ساتھ جو زمین کے قطعے کاٹ لایا تھا، وہ قطعے اب قصبے کے اندر کیچڑ کی صورت میں موجود ہیں۔

اس رضاکار سینٹر کے ساتھ ہی ایک میدان میں کوڑے کے پہاڑ لگے ہوئے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ قصبے کے لوگوں کا سامان تھا جو سیلاب کی زد میں آ کر ناکارہ ہو چکا ہے۔ جس جس گھر اور دکان کی صفائی ہوتی جاتی ہے، وہاں سے سامان لا کر یہاں ڈھیر کر دیا جاتا ہے۔ بعد میں ٹرک آ کر یہ کوڑا اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ سینٹر میں سینکڑوں کی تعداد میں رضاکار موجود تھے جن میں ہر عمر کے مرد اور خواتین شامل تھے۔ ہماری بس کی طرح درجنوں بسیں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کو لے کر ادھر آئی تھیں۔ ان طلباء کے چہروں پر ایک پختہ عزم صاف پڑھا جا سکتا تھا اور ان کے چہرے جذبۂ تعمیر سے تمتما رہے تھے۔ مجھے اس منظر نے بہت متاثر کیا۔ یہ ان بچوں کی چھٹی کا دن تھا۔ یہ چاہتے تو یہ دن کسی بھی تفریح میں صرف کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی قوم کی خاطر اپنی چھٹی کی قربانی دی اور مصیبت میں پھنسے لوگوں کی مدد کے لئے اپنے شہروں سے دور ایک چھوٹے سے قصبے میں پورا دن گزارنے آ گئے۔

مارُوموری رضاکار سینٹر کے قریب کوڑے کے پہاڑ۔ تصویر بشکریہ کیودو
اب ہم اس گھر کی طرف چلے جس کی صفائی کی ذمہ داری ہمیں دی گئی تھی۔ رستے میں قصبے کے درودیوار دیکھتے ہوئے دل ڈوب سا گیا۔ یہاں ہر سُو اداسی بال کھولے سو رہی تھی۔ قصبے میں ہُو کا عالم تھا۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ اب یہاں کوئی شخص مقیم نہیں ہے۔ گھروں اور دکانوں کی دیواروں پر سیلابی پانی اور مٹی کے اثرات دوسری منزل تک دیکھے جا سکتے تھے۔ رستے میں کئی جگہ گاڑیاں کیچڑ میں دبی ہوئی نظر آئیں۔ جگہ جگہ بجلی کے کھمبے مڑے تڑے ہوئے اور گرے ہوئے دیکھنے کو ملے۔
مارُوموری کا ایک مکان جس میں سیلاب سے ہونے والا نقصان واضح ہے
ایک گاڑی سیلاب کے بعد رہ جانے والے کیچڑ میں ڈوبی ہوئی ہے
کئی مقامات پر کھمبے گر جانے کے باعث بجلی کی تاریں کٹ چکی ہیں اور بجلی ابھی تک منقطع ہے
جب ہم اس گھر پہنچے جسے صاف کرنے کی ذمہ داری ہمیں دی گئی تھی تو مارُوموری میں ہونے والی تباہی اور نقصان کے اثرات کو پہلی بار ایک انسانی چہرے پر دیکھا۔ اس گھر کی مالکن ایک بوڑھی خاتون تھیں جو رضاکاروں کے ساتھ برابر کام میں جُتی ہوئی تھیں اور انہیں ہدایات دے رہی تھیں۔ گھر کا ایک بڑا حصہ پہلے ہی صاف کیا جا چکا تھا۔ لیکن گھر کے ساتھ ہی ایک شیڈ تھا جو غالبا سٹور کے کام آتا ہو گا۔ ہماری ذمہ داری اس شیڈ سے کیچڑ صاف کرنے کی تھی۔ پہلے ہمیں مارُوموری کی رضاکار تنظیم کی ایک نمائندہ خاتون نے ہدایات دیں اور کام کی نوعیت کے بارے میں بتایا۔ جب انہوں نے بتایا کہ ہمیں سارا دن کدالوں کی مدد سے شیڈ سے کیچڑ نکال نکال کر باہر پھینکنا ہے، تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ تو نہایت محنت طلب کام معلوم ہوتا ہے، نہ جانے لڑکیاں یہ کام کیسے کریں گی؟ لیکن ان کا بھلا ہو کہ اسی وقت انہوں نے کہا کہ لڑکیاں میرے ساتھ چلیں۔ ہم نے گھر کے اندر باقی ماندہ صفائی کرنی ہے اور اندرونی سجاوٹ کرنی ہے۔ یہ سن کر میں نے سُکھ کا سانس لیا۔ غالبا مارُوموری میں ابھی تک فیمینزم نہیں پہنچ پایا۔ کیونکہ نہ تو لڑکیوں نے اور نہ لڑکوں نے کوئی اعتراض کیا کہ لڑکیوں کے ساتھ غیر مساوی سلوک کیوں ہو رہا ہے اور انہیں آسان کام کیوں دیا جا رہا ہے؟ لڑکیوں کے چلے جانے کے بعد ہم نے اس شیڈ کا ابتدائی جائزہ لیا اور کام میں جُت گئے۔
مارُوموری کی رضاکار تنظیم کی نمائندہ خاتون ٹوہوکُو یونیورسٹی کے رضاکاروں کو ہدایات دے رہی ہیں
ہم اس شیڈ کا ابتدائی جائزہ لے رہے ہیں جس کی صفائی ہمیں کرنی ہے

ٹوہوکُو یونیورسٹی کے رضاکار شیڈ کی صفائی کر رہے ہیں
مجھے یہ اندازہ تو تھا کہ کام کتنا دشوار ہے، لیکن یہ بالکل اندازہ نہ تھا کہ اس جگہ کتنی سڑانڈ ہو گی۔ جلد ہی ہمیں معلوم ہوا کہ سیلابی پانی صرف مٹی ہی نہیں لے کر آیا، بلکہ سبزیوں اور چاول کی فصل بھی تباہ کرتا ہوا اپنے ساتھ لے آیا ہے۔ اب یہ سبزیاں گل سڑ رہی تھیں اور کدال سے مٹی نکالتے وقت مٹی میں دبی یہ سبزیاں بھی باہر آ جاتی تھیں اور ان کی بدبو زیادہ ہوتی جاتی تھی۔ مٹی سے بچاؤ کے علاوہ حفاظتی ماسک کی ایک اورحکمت بھی معلوم ہوئی کہ اس کی وجہ سے بدبو کے اثر میں بھی نمایاں کمی محسوس ہوئی۔
اس دن یہ حفاظتی ماسک میرے لئے کئی چیزوں سے بچاؤ کا ذریعہ بنا
جلد ہی یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ میرے ساتھیوں کو کدال کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ نہیں ہے۔ تجربہ تو خیر مجھے بھی نہیں تھا لیکن میں نے درجنوں بار مزدوروں کو اپنے اور اپنے محلے کے دوسرے گھروں کی تعمیر و مرمت کرتے دیکھ رکھا تھا۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو دکھایا کہ تم جس طرح صرف اپنے ہاتھوں کو استعمال کرتا ہوئے کدال سے کیچڑ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہو، یہ طریقہ مشکل بھی ہے اور زیادہ موثر بھی نہیں۔ بہتر طریقہ یہ ہے کہ کدال کو ایک ترچھے زاویے پر رکھا جائے اور اپنے ایک پیر سے زور لگا کر اسے زمین کے اندر گھسایا جائے۔ اس طریقے میں زیادہ زور بھی نہیں لگتا اور کام بھی جلد ہو جاتا ہے۔ جلد ہی میرے سب ساتھیوں نے یہی طریقہ استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم کیچڑ اٹھا اٹھا کر شیڈ سے باہر ایک کونے میں ڈھیر لگاتے جاتے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ایک ٹرک آتا تھا اور اس ڈھیر کو اٹھا کر چلا جاتا تھا۔

اس ایک شیڈ سے کیچڑ نکالتے ہوئے ہمیں کلو نہیں بلکہ منوں کے حساب سے چاول کیچڑ میں دبے ہوئے ملے۔ ہر بار کدال چلاتے ہوئے ہمیں کیچڑ میں سینکڑوں کے حساب سےسفید سفید ذرے نظر آتے جو دراصل چاول کے دانے ہوتے تھے۔ سیلاب نے چاول کی کھڑی فصل کو تباہ کر دیا تھا اور اسے کیچڑ کے ساتھ لوگوں کے گھروں اور شاہراہوں پر لاڈھیر کیا تھا۔ چاول کے علاوہ ہمیں کیچڑ سے بہت سے لیموں، شکرقندی اور پیاز بھی ملے۔ اس کے علاوہ گھریلو ضروریات کا سامان مثلا پلیٹیں، گلاس، تکیے، قینچی، چھری وغیرہ بھی ملتے رہے جنہیں ہم احتیاط سے ایک الگ کونے میں رکھ دیاکرتے تھے۔
خاکسار کے ہاتھ میں پھر کدال تھما دی گئی۔ کیچڑ کے اندر چمکتے یہ سفید نقطے دراصل چاول کے دانے ہیں
اس کام کی خاص بات یہ تھی کہ ہمارا کافی خیال رکھا جا رہا تھا۔ ہر آدھے گھنٹے کے بعد دس منٹ کا وقفہ دیا جاتا تھا جس میں ہم پانی پیتے تھے اورسستا لیتے تھے۔ میں نے ایک بار کہا بھی کہ ابھی مجھے نہ تھکاوٹ ہوئی ہے اور نہ پیاس لگی ہے، لہذا مجھے وقفے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہمارے سپروائزر نے کہا نہیں! آپ پھر بھی وقفہ کریں۔ ابھی آپ کو وقفے کی ضرورت نہیں محسوس ہو رہی، لیکن عین ممکن ہے کہ تھوڑی دیر بعد آپ کو تھکاوٹ اور پیاس محسوس ہو اور اس وقت آپ کو وقفہ نہ مل سکے۔ یہ بات میں نے اپنے پلے سے باندھ لی۔ زندگی میں کئی بار ہم خود کو ملنے والی کسی نعمت کی ناقدری کرتے ہیں کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں، اور جب بعد میں اس کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ نعمت دوبارہ نہیں ملتی۔

کھانےکے وقفے کے دوران میں نے کھانا جلد ختم کر کے اِدھر اُدھر چہل قدمی کی اور تصویریں لیں۔ پھر مجھے خیال گزرا کہ ان تصاویر کا گوگل میپ پر پڑی اسی علاقے کی تصاویر کے ساتھ تقابل کرنا چاہئے تاکہ علم ہو کہ ہاگیبِس نے ادھر کتنا نقصان کیا ہے۔ ہاگیبِس سے پہلے اور بعد کی تصاویر میں فرق بہت واضح تھا۔

الف - ہماری گلی ہاگیبِس سے پہلے
الف - ہماری گلی ہاگیبِس کے بعد
ب - چاولوں کے کھیت ہاگیبِس سے پہلے
ب - چاولوں کے کھیت ہاگیبِس کے بعد

ج - ہمارا شیڈ ہاگیبِس سے پہلے
ج - ہمارا شیڈ ہاگیبِس کے بعد
وقفے کے دوران میرے ساتھی مجھ سے پاکستان کے متعلق باتیں پوچھتے رہے۔ میں نے انہیں اردو میں شکریہ کہنا اور سلام کرنا سکھایا۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہارے لئے ادھر بطور رضاکار آنے کا جذبۂ محرکہ (موٹیویشن) کیا تھا؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں ادھر گزشتہ پانچ سال سے جاپانی حکومت کی میکسٹ سکالرشپ پر تعلیم حاصل کر رہا ہوں۔ میں اسے خود پر جاپان کا بہت بڑا احسان سمجھتا ہوں کہ اس نے مجھے اتنی اعلٰی تعلیم مفت حاصل کرنے اور جاپانی حکومت کے خرچے پرسندائی میں رہنے کا موقع دیا۔ ادھر بطور رضاکار آ کر کام کر کے میں دراصل اس احسان کا چھوٹا سے بدلہ دینے کی کوشش کر رہا ہوں اور آئندہ بھی مجھے جب بھی موقع ملا، میں تھوڑا تھوڑا کر کے اس احسان کو چُکانے کی کوشش کر تا رہوں گا۔ 
هَلۡ جَزَآءُ ٱلۡإِحۡسَـٰنِ إِلَّا ٱلۡإِحۡسَـٰنُ 
احسان کا بدلہ احسان کے سوا کچھ نہیں ہے (الرحمٰن: ٦۰)

کھانے کے وقفے کے بعد ہم اسی طرح کام کرتے رہے۔ رفتہ رفتہ شیڈ کے اندر کیچڑ کا ڈھیر سکڑنے لگا اور جب شیڈ کے ایک بڑے حصے میں فرش صاف نظر آنے لگا تو خوشی اور طمانیت کا احساس میری رگ و پے میں سرایت کرنے لگا۔ ساڑھے تین بجے ہمارے سپروائزر نے کام ختم کرنے کا اعلان کیا۔ اس وقت تک سارا شیڈ تقریبا صاف ہو چکا تھا۔ اپنے پورے دن کی محنت کا پھل اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر میرے ساتھیوں کے چہرے خوشی سے جگمگا رہے تھے۔ ہم نے ایک الگ کمرے میں جا کر کپڑے تبدیل کئے جو کہ مٹی اور پسینے سے لت پت ہو چکے تھے۔ نئے کپڑے پہن کر تازگی کا احساس لوٹ آیا۔ اس کے بعد ہم بس میں جا بیٹھے اور واپسی کا سفر شروع ہوا۔

سندائی واپس پہنچنے کے بعد بھی ہمارا کام ختم نہیں ہوا۔ ہم نے گھر جانے سے پہلے اپنے اپنے لونگ بُوٹس اور کدالوں کو پانی سے دھو کر صاف کیا تاکہ آئندہ استعمال کرنے والوں کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ اس کے بعد ٹوہوکُو یونیورسٹی رضاکار کلب کے نمائندے نے ہم سب کا شکر یہ ادا کیا اور ہم اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اور یوں ایک یادگار دن اختتام پذیر ہوا۔

میں اس وقت جاپان میں نہیں تھا جب دوسری جنگِ عظیم میں اس پر ایٹم بم گرائے گئے تھے، نہ میں اس وقت یہاں تھا جب ۱۱ مارچ ۲۰۱۱ء کو یہاں ریکٹر اسکیل پر۹،۰ شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ لیکن میں یہاں اس وقت ضرور تھا جب یہاں ٹائفون ہاگیبس آیا تھا۔ میں نے اس قوم میں جو عزم، جو جذبہ اور جو ہمت دیکھی ہے، اس کے بعد میرے لئے یہ تصور کرنا مشکل نہیں کہ دوسری جنگِ عظیم میں اعصاب شکن شکست کے بعد یہ قوم دس سال کے اندر کیسے کھڑی ہو گئی تھی اور ایک عظیم اقتصادی طاقت کیسے بن گئی تھی؟ جس قوم کے بوڑھے، بچے اور جوان ایک ہو کر اس طرح محنت میں جُت جائیں اور ایک دوسرے سے بڑھ کر ایثار کرنے لگیں، اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ یہ قوم ہر جھٹکے کے بعد فورا اٹھ کھڑے ہونے کی اور ملک کی نئے سرے سے تعمیرِ نو کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اور جس قوم کے اندر یہ صلاحیت اور یہ جذبہ موجود ہو، وہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتی۔ 

اگر ہے جذبۂ تعمیرزندہ
تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے

حوالہ جات: