حسینؓ کی محبت کا عملی تقاضا



کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ حضرت حسین رضی الله تعالٰی عنه نے اپنی جان کی قربانی “کونسے اسلام” کے لئے دی تھی؟
کیا یزید نے انہیں نماز پڑھنے سے روکا تھا؟ کیا ان کے روزہ رکھنے پر پابندی لگائی تھی؟ کیا انہیں زکوٰة ادا کرنے کی ممانعت کر دی گئی تھی؟ یا ان کے حج کرنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کر دی تھی؟
یہ نماز روزے والا اسلام تو اس وقت بھی بالکل اسی طرح موجود تھا جیسا رسول الله صلی الله علیه وسلم کے زمانے میں تھا۔ اسلام بطور مذہب تو اسی طرح جوں کا توں موجود تھا۔ اسلام کے عقائد، عبادات اور رسومات میں چنداں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں ہوئی تھی۔

تبدیلی کیا آئی تھی؟ ذرا خود غور کریں کہ وہ کیا تبدیلی تھی جس کے خلاف نواسۂ رسول صلی الله علیه وسلم اٹھ کھڑے ہوئے تھے؟
یہ تبدیلی اسلام بطور مذہب میں نہیں ہوئی تھی، بلکہ اسلام بطور دین میں ہو رہی تھی۔ یہ “اسلامی نظام” میں تبدیلی کی کوشش تھی۔ “سیاسی اسلام” کے محض ایک پہلو، یعنی خلیفہ کی تقرری کے طریقۂ کار سے انحراف کیا جا رہا تھا۔ اور حسین رضی الله عنه کی غیرت نے یہ گوارا نہ کیا کہ وہ اپنے نانا کے دین میں اتنی سی ملاوٹ بھی برداشت کر لیں۔

اور آج ہم کیا کر رہے ہیں؟ اسلامی نظام میں ملاوٹ کرنا تو کجا ہم نے تو اسلام کے نظام ہونے کا ہی انکار کر دیا ہے۔ ہم نے تو فیصلہ کیا ہے کہ دین کا امورِ سلطنت سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے۔ ہم نے تو اپنی سیاست، معیشت اور عدالت سے اسلام کو نکال باہر کیا ہے اور اسے صرف مسجدوں تک محدود کر دیا ہے۔ ذرا تصور کیجئے، اگر آج حسین رضی الله تعالٰی عنه موجود ہوتے تو وہ اسلام کے ساتھ ہونے والا یہ برتاؤ دیکھ کر ہم پر کتنا غضبناک ہوتے۔

اگر آپ حسین رضی الله عنه کو حق پر سمجھتے ہیں، اگر آپ کربلا کے شہیدوں کے خون کو مقدس سمجھتے ہیں اور اگر آپ کو اہلِ بیت سے محبت ہے تو پھر اس محبت کا عملی ثبوت دیجئے۔ اسلام کو صرف مسجدوں تک محدود نہ کیجئے بلکہ اسے اپنی پوری زندگی پر نافذ کیجئے۔

اسلام صرف عقائد، عبادات اور رسومات کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اس میں سیاسی، معاشی اور عدالتی امور بھی شامل ہیں۔ یہ ایک فرد کے نجی معاملات سے لے کر قوم کے اجتماعی معاملات تک تمام امور کا احاطہ کرتا ہے، رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اپنا غلبہ چاہتا ہے۔ اور حضرت حسین رضی الله تعالٰی عنه کے حقیقی پیروکار وہی لوگ ہیں جو اسلام کے مکمل غلبے کی جدوجہد کرتے ہیں اور اس میں کوئی ملاوٹ برداشت نہیں کرتے۔

پس نوشت:
یہ تحریر دلیل ڈاٹ پی کے پر ۱٦ ستمبر ۲۰۱۹ء کو شائع ہو چکی ہے۔
https://daleel.pk/2019/09/16/111708