اردگان کا ترکی


رجب طیب اردگان کو اللہ تعالٰی نے انتخابات میں کامیابی بخشی اور وہ دوبارہ ترکی کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ موجودہ امیدواروں میں سب سے بہتر اردگان ہی تھے اور بلا شبہ ان کی فتح کے لئے پورے عالمِ اسلام سے لوگوں نے دعائیں کی تھیں۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان سے بہت سی توقعات وابستہ کر چکی ہے اور اسلام پسندوں کا ایک گروہ انہیں اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور عثمانی خلافت کی بحالی کا نقیب سمجھتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اپنے پندرہ سالہ دورِ اقتدار میں اردگان ان توقعات پر کس حد تک پورا اتر سکے ہیں؟
میں اردگان کےاقتدار میں ترکی کی قانون ساز اسمبلی میں پاس کیے گئے کسی اسلامی قانون کی مثال نہیں ڈھونڈ سکا۔ گویا پندرہ سال میں ترکی میں اسلامی قانون سازی میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ بلکہ اس کے برعکس اردگان نے بذاتِ خود سیکولرازم کے حق میں کئی بیانات دیے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ ترکی سیکولر ہی رہے گا۔

میری رائے میں اس عرصے میں یہ ضرور ہوا ہے کہ ترکوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اتاترک کے ملحد ترکی سے، جہاں اذان، داڑھی اور حجاب پر بھی پابندی تھی، بہت آگے نکل کر اردگان کے سیکولر ترکی تک پہنچ گئے ہیں، جہاں اذان اور حجاب پر کوئی پابندی نہیں، لیکن قانون سازی میں ابھی بھی اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں۔ جہاں ایک ہی وقت میں مساجد سے اذانوں کی آواز بھی آتی ہے اور شراب خانوں کا کاروبار بھی کھلے عام جاری رہتا ہے، جہاں لاکھوں بچے مدرسوں میں قرآن و سنت کی تعلیم حاصل کرنے داخل ہوئے ہیں لیکن نائٹ کلبز کی رونقیں بھی ماند نہیں پڑی ہیں۔

میں یہ پھر واضح کر دوں کہ موجودہ حالات میں اردگان ہی بہترین انتخاب ہیں اور جہاں عالمِ اسلام کے باقی رہنما دم سادھے بیٹھے رہتے ہیں وہاں ان کی شیر جیسی آواز میں امت کا موقف دلیری کے ساتھ پیش کرنا ہی ہمارے لئے غنیمت ہے۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ اردگان خود بھی سیکولر ہیں۔ ان کو امت کا نجات دہندہ یا آئیڈیل رہنما نہیں سمجھا جا سکتا۔

اردگان درست راستے کے طرف ترکی کی بڑھتے ہوئے اولین قدم ہیں۔ اردگان نشانِ راہ ہیں منزل نہیں ہیں۔ ہماری منزل ابھی بھی کوسوں دور ہے۔