اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ


ایک شخص جو منزل پر نہ پہنچ سکے اور راستے میں ہی رہ جائے تو کیا اسے کامیاب قرار دیا جا سکتا ہے؟  آپ کہیں گے کہ نہیں یہ کامیابی نہیں۔ کامیاب تو صرف وہی ہے جو منزل تک پہنچ جائے۔

لیکن الله تعالٰی اپنے بندوں پر اتنے مہربان ہیں کہ انہوں نے کامیابی کے لئے کسی منزل کا تعین نہیں کیا بلکہ جو شخص بھی الله تعالٰی کے بتائے ہوئے رستے پر چلنا شروع کر دے وہ کامیاب ہے۔ چاہے وہ اس رستے پر ہزاروں میل چلے یا محض چند قدم چل سکے۔ چاہے وہ تیزی سے سفر طے کرے یا رک رک کر۔ جب وہ صحیح رستے پر سفر کرنا شروع کر دے تو وہ کامیاب ہے! کامیاب ہے! کامیاب ہے!!

صحیح راستے پر آ جانے کے بعد اب یہ انسان کے اپنے اوپر ہے کہ وہ کتنی محنت اور کوشش کرتا ہے اور کتنا سفر طے کرتا ہے۔ جتنا سفر طے کرے گا اتنے ہی اس کے درجات بلند ہوتے چلے جائیں گے۔

درست راستے پر آ جانا ہی اس قدر اہم ہے کہ ہم ہر نماز کی ہر رکعت میں الله تعالٰی سے صراط المستقیم کی دعا کرتے ہیں۔ اور میری نظر میں یہ آیت سورت الفاتحہ کا مغز ہے۔

اس آیت سے پہلے تین آیات میں الله تعالٰی کی حمد و ثناء ہے اور ایک آیت میں عبدیت کا دعوٰی ہے جس کے وسیلے سے دعا مانگی جا رہی ہے۔ اس آیت وہ مرکزی دعا ہے جس کے لئے اتنی تمہید باندھی گئی تھی۔ اس دعا کے علاوہ سورت الفاتحہ میں اور کسی چیز کی دعا نہیں کی گئی۔ اس آیت کے بعد اگلی دونوں آیات میں اس دعا کی مزید وضاحت ہے۔

یہ بہت جامع دعا ہے اور ہر انسان کو اس دعا کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔ انسان تقوٰی کے جس درجے پر بھی ہو، اسے ہمیشہ ہدایت کی حاجت رہتی ہے۔

الله تعالٰی ہمیں سیدھا رستہ دکھائے۔ اور جب ہم سیدھا رستہ پا لیں تو ہمیں اس پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین