سچ تو یہی ہے کہ ہیرے کی اصل قدروقیمت ایک جوہری اور ایک فن پارے کی اصل حیثیت اس کا قدردان ہی پہچان سکتا ہے۔ عوام الناس کے لئے تو وہ محض ایک بے کار پتھر اور کاغذ پر کھینچی گئی چند آڑی ترچھی لکیریں ہی ہوں گی۔
اب ذرا تصور کیجئے مصر کے دربار کا جہاں ایک مطلق العنان حکمران اور مقتدرِ اعلٰی ہونے کےدعوے کی شکل میں خدائی کے دعویدار پادشاہ(۱) نے اپنے دور کے نبی کو چیلینج دے رکھا ہے کہ تم تو محض ایک جادوگر ہو، تم جیسے بہت سے جادوگر ہم دیکھ چکے۔ تم ذرا میرے جادوگروں سے مقابلہ کر کے دکھاؤ تو جانیں (۲) (۳)۔ پھر یہ مقابلہ ایک دنیا نے سرِ عام ایک میلے میں دیکھا کہ نبی کے معجزے نے آنکھوں کی ساری بندشیں کھول کر رکھ دیں اور حق و باطل میں فرق واضح کر دکھایا(۴)۔
لیکن اس بھرے مجمع میں ایمان لانے کی توفیق کس کو ہوئی؟ صرف ان جادوگروں کو جو کچھ ہی دیر پہلے مقابلے پر اترے ہوئے تھے۔ ایک قابل جوہری کی مانند وہ بھی اس ہیرے کی قدر پا گئے کہ ایں چیزِ دیگر است۔ ہر ماہرِ فن کی طرح وہ بھی اپنے فن کی حدود و قیود سے بخوبی واقف تھے اور وہ جان گئےتھے کہ یہ تو جادو سےبہت بلند و بالا شے ہے۔ یہ حقیقت منکشف ہوئی تو وہ سب وہیں سجدے میں گر پڑے اور پکار اٹھے کہ ہم ایمان لائے موسٰی کے رب پر(۵)۔ رہے فرعون کے درباری اور اس مقابلے کے تماشائی عوام ، تو وہ غالباً یہی سمجھے ہوں گے کہ یہ باقی شعبدہ بازوں سے بڑھ کر ایک نیا شعبدہ دکھایا گیا ہے۔
ہر ظالم، جابر اور متکبر انسان کی طرح فرعون کو بھی سرِ عام اپنا موقف غلط ثابت ہونے میں اپنی تذلیل نظر آئی اور وہ غصے سے پیچ و تاب کھانے لگا۔ اس کے عتاب کا نشانہ بنے وہی جادوگر اور وہ ان پر گرجا کہ تمہیں ہمت کیسے ہوئی میری اجازت کےبغیر موسٰی کے رب کو ماننے کی؟ تمہاری سزا اب یہی ہے کہ تمہارے ہاتھ پاؤں کاٹ کر درختوں سے باندھ کر تمہیں سولی کر دیا جائے(٦)۔ لیکن ادھر ایمان کی شمع دل میں روشن ہو جانے کے بعد دنیا و مافیہا اس کے آگے ہیچ نظر آئی۔ ایک ہی جست میں وہ مقامِ سود و زیاں سے آگے نکل گئے، عشق پھر بے خطر آتشِ نمرود میں کود پڑا کہ اب تو ہر چہ بادا باد۔ بولے بیّنہ آ جانے کے بعد تو ہم تمہاری بات مان ہی نہیں سکتے سو جو کرنا ہے کر ڈالو، تمہارا زور تو صرف اس دنیا میں ہی چل سکتا ہے۔ ہم نےتو اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کیا کہ وہ ہماری خطاؤں سے درگزر کرے اور تیرے کہنے پر جو جادو ہم نے کیا اس پر ہمیں معاف فرمائے(۷)۔
یوں وہ سب قتل کئے گئے اور ساری زندگی کفر، شرک اور جادو میں گزارنے کے باوجود جس ایک لمحے میں ایمان اور استقامت کی نعمت نصیب ہوئی اسی میں شہادت پائی اور جنت کے حقدار ٹھہرے(۸)۔
رشک آتا ہے ایسی کامیابی پر!۔
اب اسی فرعون اور اس کی قوم کو اس معجزے کے بعد پے درپے سات عذابوں سے گزارا گیا کہ وہ اپنی اصلاح کریں(۹)۔ لیکن جب انسان نفس کی، دولت کی اور اقتدار کی غلامی اختیار کر لیتا ہے تو اسے اللہ کی غلامی نصیب نہیں ہوتی۔ سچ سامنے نظر آنے پر بھی ایسے لوگ اپنے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اندھے، گونگے، بہرے بن جاتے ہیں(۱۰)۔ آخرکار عذاب سے تنگ آ کر اس لعین نے موسٰی اور ان کی قوم کو جانے کی اجازت دی بھی تو کچھ ہی دیر بعد اس کے نفس نے پھر اسے ورغلایا اور وہ نکل پڑا تعاقب میں(۱۱)۔ ہدایت واضح ہو جانے کے بعد بھی جو حجت کرتے ہیں اور اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں ان کے دل ایسے ہی مردہ ہو جایا کرتے ہیں اور ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں سلب کر لی جاتی ہیں۔ موت خود اسے کھینچ کر لے آئی اور شق البحر کی صورت میں ایک اور معجزہ دیکھنے کے بعد بھی وہ باز نہ آیا۔ اس کی آنکھیں تو اس وقت کھلیں جب پانی محاوتاً اور حقیقتاً بھی سر سے گزر چکا تھا۔ بولا میں ایمان لایا موسٰی کے رب پر(۱۲)۔ پر موت کا وقت آ جائے تو توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ساری زندگی معصیت میں بسر کرنے کے بعد موت کے وقت لبوں پر کلمہ جاری بھی ہو جائے تو کسی کام نہیں آتا۔ جادوگروں کو بھی زندگی بھر میں ایک لمحے کا ایمان نصیب ہوا تھا اور فرعون کو بھی۔ لیکن کتنا فرق ہے دونوں میں! یا اللہ کتنا فرق ہے!۔
جادوگروں کا ایمان مقبول ہوا اور فرعون کا رد کیا گیا اور اسے قیامت تک کے لئے عبرت کی مثال بنا دیا گیا(۱۳)۔ پر اس سے بھی زیادہ بدنصیب سامری ثابت ہوا جسے ان سارے مراحل سے گزرنے کے بعد اور من و سلوٰی کھانے کے بعد بھی ایمان کی چاشنی نصیب نہ ہوئی اور ظالم نے بچھڑے کو معبود بنا ڈالا اور اپنی قوم کی کثیر تعداد کو گمراہ کیا(۱۴)۔
کہتے ہیں تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے ۔ تاریخ کے ہر موڑ پر ہمیں یہ سارے گروہ مل جاتے ہیں اور اہلِ نظر پہچان لیتے ہیں کہ فرعون اور اس کے درباری کون ہیں، موسٰی اور ان کی قوم کون، وہ خاموش تماشائی کون جو صرف میلہ دیکھنے آئے تھے اور وہ بدنصیب سامری اور اس کے پیروکار کون۔
فاعتبروا یا اولی الابصار!( ۱۵)۔دیکھنے والوں کے لئے نشانیاں بہت اور ہدایت کے متلاشیوں کے لئے ہدایت کے سرچشمے بہت۔ پر کوئی دیکھنے والا تو ہو! کوئی ہدایت پانے کا متلاشی تو ہو!۔
اس قرآنِ عربی میں اللہ تعالٰی ایسے اسباق کو کھول کھول کر مختلف انداز میں بیان فرماتے ہیں (۱٦)۔پس خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے اس کی ہدایت کو سمجھا، اس پر عمل کیا اور فرعونِ وقت کی طرف سے دی گئی ہر دھمکی، ہر آزمائش اور ہر سزا میں استقامت دکھائی اور ثابت قدم رہے۔ بدبخت ہیں وہ لوگ جنہوں نے ہدایت کے مبرہن ہونے کے بعد بھی اپنی انا، مال یا اقتدار کے نشے میں مست ہو کر آیات اللہ کا انکار کیا، اہلِ ایمان پر عرصۂ حیات تنگ کیا غرضیکہ اپنے دلوں پر قفل ڈلوا لئے(۱۷) ۔ بے ذوق ہیں وہ لوگ جنہوں نے ان آیات اللہ کو محض شعبدہ سمجھا اور ان پر غور و فکر کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی کوئی سعی نہ کی۔ بلکہ اسے رنگ برنگے غلافوں میں لپیٹ کر چُومنے، بیٹی کے سر پر اسے رکھ کر رخصت کرنے اور قریب المرگ شخص کے سرہانے اس کی تلاوت کرنے کو ہی کافی سمجھا۔ اور بد نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے آیات اللہ کو ماننے، پہچاننے اور سمجھنے کے بعد بھی دین میں نت نئی خرافات ایجاد کیں(۱۸)(۱۹) اور اپنے اپنے بچھڑے تراش کر انہیں پوجنے میں لگ گئے۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!۔
سچ تو یہی ہے کہ ہیرے کی اصل قدروقیمت ایک جوہری اور ایک فن پارے کی اصل حیثیت اس کا قدردان ہی پہچان سکتا ہے۔ عوام الناس کے لئے تو وہ محض ایک بے کار پتھر اور کاغذ پر کھینچی گئی چند آڑی ترچھی لکیریں ہی ہوں گی۔
باقی رہے نام اللہ کا۔
پسِ نوشت
یہ تحریر دلیل ڈاٹ پی کے پر ۲۲ مئی ۲۰۱۸ء کو شائع ہو چکی ہے۔
https://daleel.pk/2018/05/22/82277
یہ تحریر دلیل ڈاٹ پی کے پر ۲۲ مئی ۲۰۱۸ء کو شائع ہو چکی ہے۔
https://daleel.pk/2018/05/22/82277
حوالہ جات