لیکن ہم اس الیکشن کو مکمل طور پر نظر انداز بھی نہیں کر سکتے۔ اکیسویں صدی میں دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ کسی ایک ملک کے فیصلوں اور پالیسیوں کا دوسرے ملکوں پر لازمی اثر پڑتا ہے۔ اور جہاں بات امریکہ جیسی ایک عالمی طاقت کی ہو، تو اس کے فیصلے پوری دنیا پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس گلوبل ولیج کا ایک شہری ہونے کے ناطے میں یہ چاہوں گا کہ اس تعصب، نسل پرستی اور نفرت کا خاتمہ ہو جس کا مظاہرہ ہم پچھلے چار سالوں میں بار بار دیکھتے آئے ہیں۔ میں چاہوں گا کہ ایک عالمی طاقت کی حکمرانی کسی جذباتی، نادان اور بے صبرے شخص کو ملنے کے بجائے کسی مدبر، دانا اور معتدل مزاج انسان کو ملے۔ ایسا شخص جو دنیا میں امن قائم رکھ سکے۔ ایسا شخص جو سائنسدانوں کی باتوں پر کان دھرے اور گلوبل وارمنگ کے حل کے لئے مثبت اقدامات کرے۔ گلوبل وارمنگ ایک ایسا مسئلہ ہے جو پوری دنیا کے لئے وجودی بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے، اب اسے مزید نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔ میں ایسا شخص چاہوں گا جو کرونا وائرس کے معاملے پر سنجیدگی دکھائے اور اس وبا سے ہونے والے جانی و مالی نقصان کو کم سے کم سطح پر رکھنے کی کوشش کرے۔ ایک ایسا شخص جو کسی کو اس کے رنگ، نسل، زبان، مذہب اور ملک کی بنیاد پر اپنا دشمن تصور نہ کرے بلکہ سب کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھے۔ جو خواتین کے ساتھ حسنِ سلوک کرے اور انہیں ان کے جائز حقوق دے۔ اورجو امیروں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے بجائے غریبوں کی فلاح و بہبود کا سوچے۔ ان تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا جھکاؤ واضح طور پر بائیڈن کی طرف ہے۔
تاہم میرا نہیں خیال کہ یہ انتخابات اتنے یکطرفہ ثابت ہوں گے جتنا پولز ہمیں بتا رہے ہیں۔ اگر ہم نے ۲۰۱٦ء کے انتخابات سے کوئی چیز سیکھی ہے تو وہ یہ ہے کہ پولز ہمیشہ درست ثابت نہیں ہوتے۔ کبھی پولز کسی آبادی میں موجود تمام گروہوں کی مناسب نمائندگی نہیں کر پاتے، کبھی پولز جانبدار ہوتے ہیں اور کسی ایک فریق کا پلڑہ بھاری دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، اور کبھی جن لوگوں سے پول لیا جا رہا ہوتا ہے وہ لوگ اپنی اصل رائے ظاہر نہیں کرتے اور پول میں جھوٹ بول دیتے ہیں۔ شاید کچھ لوگ سب کے سامنے اپنی اصل رائے دینے سے شرماتے ہیں کیونکہ وہ جس فریق کے حامی ہوتے ہیں، اس فریق کی حرکتوں کا دفاع کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ لہذا اگر ان انتخابات میں پولز کے نتائج اور انتخابات کے نتائج کے درمیان فرق، جو کہ عموما تین فیصد تک ہوتا ہے، پانچ چھ فیصد تک چلا گیا تو مجھے بالکل حیرت نہیں ہو گی۔ اور یہ پانچ چھ فیصد اس الیکشن کی صورتحال مکمل طور پر تبدیل کر سکتے ہیں۔ ایک اور اہم عنصر یہ ہو گا کہ کتنے فیصد لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے نکلتے ہیں۔ بائیڈن کی نسبت ٹرمپ کے حامی زیادہ فعال اور پرجوش ہیں۔ اور الیکشن کے دن وہ کرونا کے خطرے کے باوجود باہر نکل کر خود ووٹ ڈالنا پسند کریں گے۔ جبکہ بائیڈن کا انحصار بذریعہ ڈاک ڈالے گئے ووٹوں پر زیادہ ہو گا۔ ابھی مجھ پر یہ واضح نہیں کہ ہر امریکی ریاست نے بذریعہ ڈاک ڈالے گئے ووٹوں کے لئے کیا قواعد اور قوانین بنائے ہیں اور جو ووٹ الیکشن کے دن کے بعد پہنچیں گے انہیں شمار کیا جائے گا یا نہیں۔
ان تمام نکات کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے لئے پہلے سے یہ طے کر لینا مشکل ہے کہ اس الیکشن کا فاتح کون ہو گا۔ جو بائیڈن کا پلڑہ بھاری ضرور ہے لیکن ٹرمپ کی جیت کے امکانات بھی موجود ہیں اوران کے حامی بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لئے نکل کر انہیں کامیاب بنا سکتے ہیں۔ ۲۰۱٦ء میں ٹرمپ کی جیت میں رسٹ بیلٹ ریاستوں نے اہم کردار ادا کیا تھا جن میں مشی گن، وسکونسن اور پنسلوینیا اہم ہیں۔ اس بار میری نظریں پنسلوینیا پر جمی ہیں۔ میری نظر میں ٹرمپ کے ۲۷۰ الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے اور صدارتی الیکشن جیتنے کا ہر راستہ پنسلوینیا سے ہو کر گزرتا ہے۔ اگر بائیڈن یہ ریاست جیت لیں تو ٹرمپ کا صدر رہنا تقریبا ناممکن ہے۔ لیکن اگر ۲۰۱٦ء کی طرح اس بار بھی ٹرمپ پنسلوینیا میں فاتح ہوں تو پھر یہ صدارتی ریس کسی بھی طرف جا سکتی ہے۔