سنت یا بدعت؟

ایک ایسی چیز جس کا آپ کو الله تعالٰی اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم ہی نہیں دیا، جس امر کو کرنے کا آپ سے تقاضا ہی نہیں کیا، لیکن آپ اسے اپنے دین کا لازمی حصہ اور ضرورت بنا لیتے ہیں تو ایسا کرنا بدعت ہی کہلاتا ہے۔

اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو لوگ کسی بدعت میں مبتلا ہو جاتے ہیں، وہ اپنی بدعت کا اہتمام فرائض اور سنت سے کہیں بڑھ کر کرتے ہیں۔ یوں فرائض اور سنت پیچھے چلے جاتے ہیں اور فوقیت بدعت کو حاصل ہونے لگتی ہے۔ یعنی جو چیز شریعت کو مطلوب ہی نہیں ہے اس کو فرائض پر ترجیح دی جانے لگتی ہے اور یوں بدعت آپ کے دین کا حلیہ بگاڑنے لگتی ہے۔

چونکہ اپنی بدعت کے بارے میں لوگوں کو قرآن و سنت سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی، لہذا وہ اس کی کوئی حدبندی نہیں کر پاتے۔ تو پھر ہوتا یوں ہے کہ کوئی بدعت چاہے کتنی ہی نیک نیتی سے کیوں نہ شروع کی جائے، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں منکرات اور خرافات شامل ہوتی چلی جاتی ہیں۔

اس کی مثال دیکھنے کے لئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، ہمارے اپنے ملک میں بارہ ربیع الاول اور دس محرم پر جو طوفان برپا کیا جاتا ہے، اسے دیکھ کر کون ذی شعور شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ الله کا دین ایسا ہو سکتا ہے؟ جس ہستی نے ہمیں راستے میں بیٹھنے سے بھی منع فرمایا تاکہ کوئی راہگیر تنگ نہ ہو، اس ہستی کی تعظیم پورے شہر کے رستے بند کر کے سب لوگوں کو تنگ کر کے کی جائے گی؟ کیا پٹاخے چلانا اور بھارتی گانوں کی دھنوں پر بنی ہوئی نعتیں لاؤڈ اسپیکر پر فُل والیم کے ساتھ کان پھاڑ دینے والی آواز کے ساتھ چلانا آپ کے نزدیک بہت ثواب کا کام ہے؟ کیا یہ سیکھا ہے آپ نے اپنے پیارے نبی سے؟

ایک ایسا کام جو وسائل اور ذرائع ہونے کے باوجود رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان الله تعالٰی اجمعین نے نہ کیا ہو، تو ان کا یہ نہ کرنا بھی سنت کی ایک قسم ہے جسے سنتِ ترکیہ کہا جاتا ہے۔ رسول الله صلی الله وسلم اور صحابہ کرام کے دور سے لے کر چھٹی صدی ہجری تک تمام تر وسائل اور ذرائع ہونے کے باوجود ہماری امت میں عید میلاد منانے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ لہذا میں پورے دلی اطمینان کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ عید میلاد نہ منا کر میں سنتِ رسول پر عمل کر رہا ہوں۔