پاکستان قومی ریاست ہے یا اسلامی ریاست؟

غامدی صاحب کے ایک بیان کے جواب میں

حال ہی میں مجھے جاوید احمد غامدی صاحب کی ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں وہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر اپنے موقف کی تفصیل بیان کر رہے تھے اور اس موقف پر اعتراضات کے جوابات دے رہے تھے۔ غامدی صاحب نے یہ استدلال اپنایا کہ مندر کی تعمیر پر اعتراضات کرنے والے علماء دراصل پاکستان کو ایک اسلامی ریاست سمجھ کر اس پر حکم لگا رہے ہیں، لیکن پاکستان ایک اسلامی ریاست نہیں بلکہ یہ ایک قومی ریاست ہے۔ ایک اسلامی ریاست میں حکومت مندر قائم نہیں کر سکتی جبکہ ایک قومی ریاست میں ایسا ممکن ہے۔

غامدی صاحب نے دعوٰی کیا کہ پاکستان کے مذہبی طبقے نے پہلے دن سے لوگوں کو اس کنفیوژن اور خلجان میں مبتلا کیا ہے۔ قائداعظم نے پاکستان کی صورت میں مسلمانوں کی ایک قومی ریاست (مسلم اسٹیٹ) قائم کی جبکہ وہ (یعنی مذہبی طبقہ) اسے ایک مذہبی ریاست (اسلامک اسٹیٹ) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ قائداعظم نے کبھی پاکستان کو اسلامی ریاست قبول نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ قائداعظم نے اسلامک اسٹیٹ کا لفظ خود اپنی تقاریر میں استعمال فرمایا ہے۔ غامدی صاحب سے درخواست ہے کہ وہ ۲٦ فروری ۱۹۴۸ء کو قائداعظم کا امریکا کے شہریوں کے لئے ریڈیو براڈکاسٹ  پیغام دیکھ لیں۔ اس خطاب میں قائداعظم فرماتے ہیں:

یہ میرے لئے نہایت خوشی کی بات ہے کہ میں امریکا کے لوگوں سے پاکستان، اس کی حکومت، اس کی عوام اور اس کے وسائل کے بارے میں براڈکاسٹ خطاب کر رہا ہوں۔ یہ مملکت ایک مخصوص پیمانے پر برصغیر کے دس کروڑ مسلمانوں کے عزیز مقصد کی تکمیل کی نمائندگی کرتی ہے۔ پاکستان اولین اسلامی ریاست (پریمیئر اسلامک اسٹیٹ) ہے۔ یہ دنیا کی پانچویں سب سے بڑی ریاست ہے اور اس کا قیام ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو عمل میں آیا۔ 

It is a matter of great pleasure to me to give this broadcast talk to the people of the United States of America on Pakistan, its Government, its people and its resources. This Dominion which represents the fulfillment, in a certain measure, of the cherished goal of 100 million Muslims of this sub-continent. Pakistan is premier Islamic State and the fifth largest in the world, came into existence on August 14, 1947.

لہذا غامدی صاحب کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ پاکستان کو اسلامی ریاست کہنے پر مذہبی طبقے پر تنقید کریں اور انہیں کنفیوژن اور خلجان پھیلانے کا الزام دیں، جب قائداعظم خود یہی لفظ پاکستان کے لئے استعمال کر چکے ہوں۔

غامدی صاحب فرماتے ہیں کہ قومی ریاست میں آپ مذہب کی بنیاد پر شہریوں میں کوئی تفریق نہیں کر سکتے۔ 
عرض ہے کہ ایسے کئی معاملات ہیں جہاں پاکستان کے شہریوں میں مذہب کی بنیاد  پر تفریق کی جاتی ہے۔ ایک غیر مسلم پاکستان کا صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ اقلیتوں کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں علیحدہ نمائندگی دی جاتی ہے اور ان کے انتخابات الگ ہوتے ہیں جن میں مسلمان حصہ نہیں لے سکتے۔ مسلمان شہریوں سے ریاست زکوٰۃ اور عشر وصول کرتی ہے جبکہ غیر مسلموں سے یہ نہیں لئے جاتے۔ سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں غیر مسلموں کے لئے مخصوص کوٹہ رکھا جاتا ہے۔ لہذا یہ دعوٰی کرنا صحیح نہیں ہو گا کہ پاکستان میں مسلم اور غیر مسلم شہری میں کوئی تفریق نہیں ہے۔

غامدی صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان کی حیثیت بھی ایسی ہی قومی ریاست کی ہے جیسے بھارت کی ہے۔
جس شخص نے بھی تحریکِ پاکستان کا مطالعہ کیا ہو، اسے یہ علم ہو گا کہ قومیت کے مسئلے پر ہی تو یہ پوری تحریک چلائی گئی تھی۔ ہم نے ایک قومی ریاست کا انکار کر کے ہی تو ایک نظریاتی ریاست قائم کی تھی۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ اس تحریک کا نعرہ تھا جس سے برصغیر کے گلی کوچے گونج اٹھے تھے۔ غامدی صاحب ان حقائق کا انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ پاکستان بھارت کی طرح ایک قومی ریاست نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی بنیاد اسلام ہے۔ 

غامدی صاحب کہتے ہیں کہ قومی ریاست میں حکومت کو تمام مذاہب کے ساتھ  برابر کا برتاؤ کرنا ہوتا ہے۔ اگر مذہبی امور کی وزارت نے کچھ رقم عبادت گاہوں کے لئے مختص کر دی ہے تو وہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں میں انصاف کے ساتھ تقسیم ہو گی۔ اس سے مسجدیں بھی بنیں گی، مندر بھی اور گرجا بھی۔
غامدی صاحب سے عرض ہے کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست نہیں جہاں تمام مذاہب کے ساتھ برابر سلوک ہو۔ پاکستان کا سرکاری مذہب (اسٹیٹ ریلیجن) اسلام ہے اور یہ ہمارے آئین کی دفعہ نمبر ۲ میں واضح  طور پر لکھا ہوا ہے۔ لہذا ان کا یہ استدلال درست نہیں کہ پاکستان میں حکومت تو مسلمانوں کی ہے لیکن اسٹیٹ اسلامی نہیں۔ ہماری اسٹیٹ کا مذہب بھی اسلام ہی ہے۔ ہمارا کوئی بھی وزیراعظم جب حلف لیتا ہے تو وہ وعدہ کرتا ہے کہ میں اسلامی نظریے کا تحفظ کرنے کی جدوجہد کروں گا جو کہ پاکستان کے قیام کی بنیاد ہے۔ 

الغرض ہماری نظر میں غامدی صاحب پاکستان کو محض ایک قومی ریاست قرار دے کر غلطی کر رہے ہیں۔ یہ ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے جس کو مسلمانانِ برصغیر نے طویل جدوجہد کے بعد حاصل کیا۔ یہ کلاسیکی فقہی اصطلاح کے مطابق دارالاسلام تو نہیں ہے لیکن یہ ایک اسلامی جمہوریہ ضرور ہے جس کا آئین اس بات کا ضامن ہے کہ یہاں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ درحقیقت یہ ایک جدید اسلامی ریاست کا ایک تجربہ ہے۔ جیسا کہ قائداعظم نے ارشاد فرمایا تھا: ہم نے پاکستان کا مطالبہ محض ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا، بلکہ ہم ایک تجربہ گاہ چاہتے ہیں جہاں ہم اسلامی اصولوں کا تجربہ کر سکیں۔

میں آخر میں ضمنأ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کے متعلق اپنا موقف بھی بیان کر دیتا ہوں۔ میں اس معاملے میں مفتی تقی عثمانی صاحب کی رائے سے متفق ہوں۔ ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلموں کو اپنی عبادت گاہوں میں جانے کی اجازت ہے۔ اگر ضرورت ہو تو اپنے لئے نئی عبادت گاہ قائم بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن اس کام میں حکومت کو ان کی مدد کرنے کی ضرورت نہیں، یہ کام اقلیتیں خود کریں۔ حکومت کو ان کے شرک میں ان کا مددگار اور حصہ دار بننے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام کی بنیاد توحید ہے، اور ہمیں توحیدِ خالص پر قائم رہنا ہے۔ رواداری کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم غیر مسلموں کے ساتھ ان کاموں میں شریک اور مددگار ہو جائیں جن سے الله تعالٰی نے منع فرمایا ہے۔ رواداری کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلموں کو اپنی عبادت کرنے اور عبادت گاہوں میں جانے کی اجازت ہو۔ ان کے مذہبی معاملات پر کوئی روک ٹوک نہ ہو۔ اور ان کے حقوق بطریق احسن ادا کئے جائیں۔
والله اعلم بالصواب