اخلاقیات کا منبع وحی ہے یا انسانی عقل؟




ہمارے کئی ایسے دوست ہیں جو مذہب کی اخلاقی تعلیمات پر مسکرانے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کیا خاص بات ہے؟ یہ تو ہر ذی شعور انسان کو، جس میں تھوڑی بہت عقل ہو، ویسے ہی معلوم ہوتی ہے۔

یہ ایک کافی پرانی بحث ہے اور اس معاملے میں آپ کو دونوں فریقین کی جانب سے لمبے چوڑے مباحثے اور ڈھیر سارے دلائل مل جائیں گے کہ آیا اخلاقیات کا منبع و سر چشمہ وحی ہے یا انسانی عقل؟

میں اس مسئلے میں اس بات کا قائل ہوں کہ اخلاقیات کا سرچشمہ بھی وحی ہی ہے اور اگر ہمیں اخلاقیات میں پوری دنیا میں کچھ چیزیں مشترک نظر آتی ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے پوری دنیا میں اپنے انبیاء مبعوث فرمائے تھے جنہوں نے اپنی اپنی قوموں کی اخلاقی تربیت کی۔ انسان کی اخلاقی تربیت وحی کی بنیاد پر ہی ہوئی ہے، اس کی عقل کی بنیاد پر نہیں۔ میرے اپنے ساتھ کئی بار یہ معاملہ ہوا کہ میں اپنی عقل کی بنیاد پر کسی چیز کو اخلاقی طور پر درست سمجھتا تھا، پھر مجھے کسی آیت یا حدیث سے معلوم ہوا کہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے تو پھر میں نے اپنی رائے تبدیل کر لی۔

آج انسانی معاشرے کے ارتقاء کی وجہ سے آپ کو اخلاقیات انسانیت کا تقاضہ لگتی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ارتقاء بہت سے معاملات میں اخلاقیات کے تنزل کا باعث بھی بنا ہے۔مثلا صفائی کے معاملے کو ہی لے لیں۔ انسانی جسم کی صفائی آج بہت معمول کی بات اور اخلاقیات کا تقاضا سمجھا جاتا ہے۔ لیکن صرف چند صدیاں پہلے یورپ میں نہانے دھونے کا کوئی رواج نہ تھا بلکہ اسے معیوب سمجھا جاتا تھا۔ لوگ پوری پوری زندگی نہائے بغیر گزار دیتے تھے۔ آج انہیں یہ شعور تو آ گیا ہے کہ جسمانی صفائی ایک اچھی چیز ہے۔ لیکن ساتھ ہی آج وہ اس بات کے بھی قائل ہو گئے ہیں کہ بغیر شادی کئے جسمانی تعلقات قائم کرنے میں اور ہم جنس پرستی میں کوئی حرج نہیں۔ یہ ہمارے نزدیک ان کی اخلاقیات کا تنزل ہے۔ ہمارے مذہب کی اخلاقیات میں یہ دونوں چیزیں گناہِ کبیرہ ہیں اور ان کے ارتکاب پر سخت سزائیں ہیں۔

آپ خود غور کریں گے تو آپ کو ایسے بہت سے اخلاقی معاملات مل جائیں گے جہاں جدید دنیا کی انسانی عقل کی پوزیشن میں اور اللہ تعالٰی کی وحی کے ذریعےدی گئی تعلیمات میں بہت فرق ہے۔ ہمارے لئے اخلاقیات کا اصل منبع اور سرچشمہ ہمارا مذہب ہی ہے۔ وقت کے تبدیل ہونے سے ہماری اخلاقیات تبدیل نہیں ہو جاتیں۔