سب سے پہلے تو آپ یہ بات سمجھ لیں کہ جس بین الاقوامی قانون کا حوالہ دے کر آیا صوفیا کو دوبارہ مسجد بنانے کے فیصلے پر تنقید کی جا رہی ہے، وہ ۱۹۲۸ء میں بنا تھا۔ آپ اس قانون کا اطلاق ۵۰۰ سال پہلے ۱۴۵۳ء پر نہیں کر سکتے۔ اُس وقت بین الاقوامی قانون یہ تھا کہ جو حکمران کسی علاقے کو فتح کر لے، اسے اس علاقے پر پورا اختیار حاصل ہوتا ہے اور اس کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ اس علاقے کی عمارات کے ساتھ جو مرضی سلوک کرے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی دوسرے مذہب کی عبادت گاہوں کو ڈھانا یا اس کی حیثیت تبدیل کر کے اپنے استعمال میں لانا ایک معمول کی بات تھی۔ یہ کام صرف مسلمانوں نے نہیں کیا، بلکہ مسلمانوں کے بھی جو علاقے ان کے ہاتھ سے چھن گئے، وہاں کی مساجد کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا تھا۔ مثلا سپین، پرتگال، جنوبی فرانس، سسلی اور وسطی ایشیا میں آپ کو ہزاروں ایسی عمارتیں مل جائیں گی جو پہلے مساجد ہوا کرتی تھیں۔
جب ۱۹۲۸ء میں یہ قانون بنا کہ اب کسی مذہبی عمارت کوتبدیل نہیں کیا جا سکتا تو اس قانون میں بھی اس زمانے کی موجودہ صورتحال کو تسلیم کیا گیا تھا اور کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا تھا کہ سب پرانی عبادت گاہیں واپس کرو۔ ایسا کرنا انتہائی غیرمنطقی ہوتا اور اس پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس وقت آیا صوفیا کو بھی مسجد کی حیثیت حاصل تھی اور بابری مسجد کو بھی۔ اس بین الاقوامی قانون کے تحت، جس کو تمام ملکوں نے تسلیم کیا ہوا ہے، آیا صوفیا اور بابری مسجد کو بطور مسجد قائم رہنا چاہیئے تھا۔ آیا صوفیا کو میوزیم بنانا بھی غلط تھا اور بابری مسجد کو گرانا بھی غلط۔
پھر ان دونوں واقعات میں یہ بہت بڑا فرق ہے کہ آیا صوفیا کا فیصلہ اس ملک کی اعلٰی عدلیہ نے دونوں فریقین کے موقف کو سننے کے بعد کیا، لہذا اس کو ایک قانونی حیثیت حاصل ہے۔ جبکہ بابری مسجد کو ایک مشتعل ہجوم نے حملہ کر کے شہید کیا تھا جو ہر لحاظ سے غلط ہے۔ اس واقعے کے ۲۷ سال بعد بھارت کی عدالت نے اس کیس پر فیصلہ سنایا ہے کہ یہ کام ہوا تو غلط ہے، لیکن اب ہو گیا ہے تو ہم اس کو تبدیل نہیں کر رہے۔ خود انڈیا کی سپریم کورٹ نے یہ بات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ یہاں کبھی کوئی مندر موجود تھا، کیونکہ اس جگہ کی آرکیالوجیکل رپورٹ سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی۔ اس جگہ پر رام مندر ہونا صرف آر-ایس-ایس کا ایک بے بنیاد عقیدہ ہے، بہت سے ہندو بھی اس بات کو نہیں مانتے اور نہ یہ بات تاریخ کے کسی مستند حوالے سے ثابت ہوتی ہے۔