تاریخ گواہ ہے کہ ہماری ہر آنے والی آمریت کو برسرِ اقتدار جماعت کے سوا ہر سیاسی جماعت نے خوش آمدید کہا اور آمریت کے ہاتھ مضبوط کئے۔ اپنے خلاف مارشل لاء پر احتجاج کرنے والی جماعت چند برسوں بعد اپنے حریف کے خلاف مارشل لاء کا مطالبہ کرتی نظر آئی۔
مجھے تو پاکستان کی جمہوریت اور آمریت میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ ہماری ہر “سیاسی” جماعت پر درحقیقت ایک فرد کی آمریت نافذ ہوتی ہے، جس کے چشمِ ابرو کے اشاروں پر تمام فیصلے صادر ہوتے ہیں اور جس سے اختلاف کا مطلب اس جماعت سے اخراج ہوتا ہے۔
جو لوگ ۵ جولائی کے اقدام پر ہر سال غم مناتے ہیں وہ اپنی جماعت میں آمریت کیوں قبول کئے بیٹھے ہیں؟ اگر جمہوریت اتنی اچھی چیز ہے تو سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر جمہوریت کیوں نافذ نہیں کی؟ یہ کیسی سیاسی جماعتیں ہیں جن کی قیادت جاگیروں کی طرح اگلی نسل میں منتقل ہوتی رہتی ہے؟
۵ جولائی کا آپ کو یہ پیغام ہے کہ عوام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ان پر کوئی آمر حکمران ہے یا کوئی جمہوری لیڈر۔ عوام کو امن، عدل و انصاف، صحت، تعلیم اور روزگار کے مواقع ملتے رہیں تو وہ آمر کی حکومت میں بھی خوش رہتے ہیں۔ اور کوئی جمہوریت آپ کے نزدیک کتنی ہی بہترین کیوں نہ ہو، اگر وہ یہ سب چیزیں فراہم نہ کر سکے تو وہ ناکام کہلائے گی اور عوام کو اس سے کوئی لگاؤ نہ ہو گا۔