ہمارے کچھ بھائی ہیں جو ہر معاملے میں اہلِ مغرب کی تعریف اور اہلِ پاکستان پر تنقید کا پہلو نکال لیتے ہیں۔ غالبأ مغرب پر تنقید اور پاکستان کی تعریف کا ان کے ہاں رواج نہیں۔حالیہ دنوں میں امریکا میں جاری جلوس، توڑ پھوڑ اور پولیس گردی جیسے واقعات اگر پاکستان میں ہو رہے ہوتے تو ہمیں ان بھائیوں سے جہالت، عدم برداشت اور تشدد پسندی کے طعنے سننے کو ملنے تھے۔ معاشرے میں اخلاقیات کے زوال کا رونا رویا جاتا اور پاکستان کو ایک ناکام ریاست قرار دیا جاتا۔ لیکن چونکہ یہ واقعات امریکا میں ہو رہے ہیں لہذا ان واقعات میں بھی کوئی خیر کا پہلو نکالنا انہوں نے اپنی ذمہ داری سمجھا۔ فرماتے ہیں کہ امریکی زندہ قوم ہیں جو ایک ناحق قتل پر باہر نکل آئے، پاکستان میں ایسے اتنے واقعات ہوئے (سانحہ ساہیوال، سانحہ ماڈل ٹاؤن وغیرہ) لیکن ہماری قوم سوئی رہی اور باہر نہ نکلی۔
مجھے اس بات سے اتفاق ہے کہ کسی بھی ناحق قتل پر ہمیں پر زور احتجاج کرنا چاہیے ، مظلوموں کا ساتھ دینا چاہیَے اور ظالموں کے ہاتھ روکنے چاہیے۔ ایسا نہ کیا جائے تو ظلم بڑھتا چلا جاتا ہے اور ایسے واقعات بار بار ہونےلگتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ امریکی ایک ناحق قتل پر ہی باہر نکل آئے۔ امریکا میں نسل پرستی، رنگ کی بنیاد پر تشدد اور پولیس کا سیاہ فام افراد کے ساتھ ناروا سلوک رکھنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ اورایسے واقعات وہاں ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں ہوتے آئے ہیں۔ حالیہ احتجاج صرف جارج فلائیڈ کے ناحق قتل کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ یہ واقعہ ایک ٹِپنگ پوائنٹ ثابت ہوا ہے جس سے لوگوں کے اندر برسوں سے پکنے والا لاوا پھوٹ نکلا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ احتجاج پر امن نہیں رہا اور اس میں غصے اور تخریب کا رنگ غالب نظر آتا ہے۔
پاکستان میں یہ ٹِپنگ پوائنٹ کب آئے گا؟ میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ کوئی بھی قوم، چاہے وہ کتنی بھی سوئی ہوئی کیوں نہ ہو، اپنے اوپر ظلم اور ناانصافی کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتی۔
پسِ نوشت:
یہ تحریر دلیل ڈاٹ پی کے پر ۴ جون ۲۰۲۰ء کو شائع ہو چکی ہے۔
https://daleel.pk/2020/06/04/140388