ہماری نفسیات میں یہ بات شامل ہے کہ ہم عمومی طور پر اپنے زمانے کے مروجہ دنیاوی علوم سے متاثر ہو جاتے ہیں اور پھر خواہش کرتے ہیں کہ ان علوم کے اصولوں پر دین کو پرکھا جائے۔ کچھ لوگوں پر تو ان علوم کا فکری غلبہ اس قدر شدید ہو جاتا ہے کہ وہ غیب کے معاملات کو بھی ان علوم کے ترازو میں تولنا چاہتے ہیں۔ لیکن کیونکہ یہ معاملات ہماری حسیات سے ماورا ہیں، اس لئے وہ اپنی کوشش میں ناکام رہتے ہیں اوراس ناکامی سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ عقائد محض "توہمات" ہیں۔ استغفراللہ العظیم۔
یہ لوگ دنیاوی علوم کے رعب میں آ کر دین میں تبدیلی کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ دین انہیں زمانۂ قدیم کی ایک دقیانوسی بات لگنے لگتا ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ دین کی موجودہ زمانے سے مطابقت نہیں رہی اور اس کی ازسر نو تعمیر کی ضرورت ہے۔ ہارون الرشید اور اس کے بعد کے چند عباسی خلفاء کے زمانے میں جب پوری دنیا کے علوم کا ترجمہ عربی میں ہوا تو بہت سے لوگ یونانی فلسفہ اور منطق کے رعب میں آ گئے اورانہوں نے اپنے فلسفہ و منطق کی بنیاد پراسلام کی نت نئی تشریحات کیں۔ جبکہ انیسویں صدی سے لے آج تک لوگ سائنس کے رعب میں ہیں۔ وہ سائنس کی روشنی میں اسلام کو پرکھتے ہیں اور نت نئی تحقیقات پیش کرتے رہتے ہیں۔ بعض لوگ تو ہر اس بات کو اسلام سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں جو سائنس سے ثابت نہیں ہو سکتی۔
میں اسے گرد وغبار سمجھتا ہوں جو جلد یا بدیر چھٹ جانا ہے۔ فلسفہ و منطق کو امام غزالی اور امام رازی مل گئے جنہوں نے گرد وغبار صاف کر کے دین کو دوبارہ آئینے کی طرح روشن کیا۔ سائنس ابھی تک اپنے غزالی و رازی کی راہ تک رہی ہے۔
پسِ نوشت:
یہ تحریر دلیل ڈاٹ پی کے پر ۲۳ جون ۲۰۲۰ء کو شائع ہو چکی ہے۔