ان کی چیخیں کیوں نہ نکلیں



یہاں بیس سالوں سے پرائیوٹ چینلوں کے ذریعے بڑی محنت سے قوم کی ذہن سازی کی کوشش کی جا رہی تھی۔ ڈراموں کے موضوعات اور ان میں دکھائے گئے کرداروں سے یہ واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا کہ یہ معاشرے کو کس طرف دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے دوپٹے سروں سے اتر کر پہلے گلوں میں آئے اور پھر یکسر غائب ہو گئے۔ لباس چست سے چست ہوتے چلے گئے۔ نوجوان لڑکا لڑکی کی محبت پر تو ڈرامے بنتے ہی تھے، اب شادی شدہ افراد کے افئیرز پر بھی ذرامے بننے لگے۔ فحاشی و عریانی کی نئی نئی مثالیں قائم ہوتی رہیں۔ جب اعتراض کیا جاتا تو جواب ملتا کہ قوم ایسی ہی چیزیں دیکھنا پسند کرتی ہے۔ ریٹنگ ایسے مصالحے ڈال کر ہی ملتی ہے۔ اگر ڈرامے میں یہ سب کچھ نہ ہو تو ڈرامہ نہیں چلتا۔


ایسے میں ارطغرل جیسا ڈرامہ آیا اور آتے ساتھ ہی شہرت کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ اس ڈرامے کی مقبولیت کے بعد ایک طبقہ یہ دہائیاں دے رہا ہے کہ ہمیں ترک کلچر اور ہیروز کے بجائے مقامی کلچر اور ہیروز کو پروموٹ کرنا چاہئے۔ حالانکہ پچھلے بیس سال سے ہمارے چینلز پر جب مغربی اور بھارتی کلچر پروموٹ کیا جا رہا تھا اس پر انہیں کوئی اعترض نہ تھا۔ یہ اس وقت فرماتے تھے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ خود ترکی کے کئی ڈرامے (عشقِ ممنوع، میرا سلطان، وغیرہ) ہماری سکرینوں کی زینت بنے لیکن اس وقت ترک کلچر سے انہیں کوئی مسئلہ نہ ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ارطغرل سے انہیں مرچیں لگنے کی وجہ کچھ اور ہے۔


دراصل ارطغرل میں اسلامی اقدار، جہاد، خلافت، مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ اور اعلٰی اخلاقی کردار دکھایا جا رہا ہے۔ اب ایسے ڈرامے کی عوام میں مقبولیت دیکھ کر ان کی چیخیں کیوں نہ نکلیں؟ انہیں اپنی بیس سال کی محنت برباد ہوتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان میں مغربی ممالک جیسی فحاشی و عریانی اور جنسی بے راہ روی پھیلانے کا ان کا منصوبہ کئی سال پیچھے جاتا نظر آ رہا ہے۔تاریخی کرداروں پر فلمیں اور ڈرامے بننا کوئی نئی بات نہیں۔ ہمارے ہاں اسی اور نوے کی دہائی میں ایسے کئی ڈرامے بن چکے ہیں۔ لیکن ارطغرل کی خاص بات یہ ہے کہ غالباً پہلی مرتبہ اتنے بڑے بجٹ اور ہالی ووڈ جیسی پروڈکشن کوالٹی کے ساتھ ایک اسلامی تاریخی کردار پر ڈرامہ بنایا گیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ یہ ڈرامہ ایک ٹرینڈ سیٹر ثابت ہو گا۔ آنے والے سالوں میں ہمیں ارطغرل جیسے کئی ڈرامے دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔


عین ممکن ہے کہ یہ ڈرامہ فیشن انڈسٹری پر بھی اپنے مثبت اثرات چھوڑے اور خواتین کے لباس میں اس کی جھلک نظر آئے۔ بچوں کے کھلونوں میں بھی تیر کمان اور تلوار کی مانگ میں یقینی اضافہ ہو گا۔ عنقریب مارکیٹ میں ارطغرل کے نام سے کئی مصنوعات فروخت ہونا شروع ہو جائیں گی۔