باید این اقوام را تنقید غرب
(مشرق نے مغرب کی تقلید کر کے خود کو بُھلا دیا۔
حالانکہ اقوامِ مشرق کو مغرب پر تنقید کرنا چاہیے تھی۔)
The East has forgotten itself after following the West
Though its nations should have been critical of the West
قوت مغرب نه از چنگ و رباب
نی ز رقص دختران بی حجاب
(مغرب کی قوت گانے بجانے سے نہیں ہے۔
اور نہ بے پردہ لڑکیوں کے رقص کی وجہ سے ہے۔)
The power of the West is not because of its music
Nor because of its uncovered dancing girls
نی ز سحر ساحران لاله روست
نی ز عریان ساق و نی از قطع موست
(نہ یہ سرخ چہرہ جادوگرنیوں کے جادو سے ہے۔
اور نہ ان کی ننگی پنڈلیوں اور کٹی ہوئی زلفوں سے۔ )
Its not because of the magic of its red-faced witches
Nor because of their bare legs and trimmed hair
محکمی او را نه از لادینی است
نی فروغش از خط لاتینی است
(اس کی حاکمیت لا دینی کی وجہ سے نہیں ہے۔
اور نہ اس کی ترقی لاطینی رسم الخط کی وجہ سے۔)
Their authority is not because of atheism
Nor their progress a result of Latin alphabets
قوت افرنگ نه از علم و فن است
از همین آتش چراغش روشن است
(انگریزوں کی قوت ان کے علم و ہنر کی وجہ سے ہے۔
ان کا چراغ اسی آگ سے روشن ہے۔)
The power of Europe is because of their knowledge and skills
Their lamp is lit because of this fire
حکمت از قطع و برید جامه
مانع علم و هنر عمامه نیست
(ان کی حکمت کا ان کے لباس کی وضع قطع سے کوئی تعلق نہیں۔
عمامہ علم و ہنر کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔)
Their wisdom has nothing to do with their dress
Turban is not a barrier for knowledge and skills
علم و فن را ای جوان شوخ و شنگ
مغز میباید نه ملبوس فرنگ
(اے شوخ جوان! یہ علم و ہنر حاصل کرنے کے لئے
تیز دماغ چاہیے، انگریزوں کا لباس نہیں )
O waggish youth! to get such knowledge and skills
You need a sharp mind, not the western dress
اندرین ره جز نگه مطلوب نیست
این کله یا آن کله مطلوب نیست
(اس کے لئے جزرس نگاہ کی ضرورت ہے۔
اِس ٹوپی یا اُس ٹوپی کی ضرورت نہیں۔)
An insightful eye is needed
This cap or that cap is not required
فکر چالاکی اگر داری بس است
طبع دراکی اگر داری بس است
(اگر تمہاری فکر چالاک ہے تو بس یہی کافی ہے۔
اور اگر تمہاری طبیعت ادراک والی ہے تو بس یہی کافی ہے۔)
If you have smart ideas then that is enough
If you have a perceptive nature then that is enough
نی ز رقص دختران بی حجاب
(مغرب کی قوت گانے بجانے سے نہیں ہے۔
اور نہ بے پردہ لڑکیوں کے رقص کی وجہ سے ہے۔)
The power of the West is not because of its music
Nor because of its uncovered dancing girls
نی ز سحر ساحران لاله روست
نی ز عریان ساق و نی از قطع موست
(نہ یہ سرخ چہرہ جادوگرنیوں کے جادو سے ہے۔
اور نہ ان کی ننگی پنڈلیوں اور کٹی ہوئی زلفوں سے۔ )
Its not because of the magic of its red-faced witches
Nor because of their bare legs and trimmed hair
محکمی او را نه از لادینی است
نی فروغش از خط لاتینی است
(اس کی حاکمیت لا دینی کی وجہ سے نہیں ہے۔
اور نہ اس کی ترقی لاطینی رسم الخط کی وجہ سے۔)
Their authority is not because of atheism
Nor their progress a result of Latin alphabets
قوت افرنگ نه از علم و فن است
از همین آتش چراغش روشن است
(انگریزوں کی قوت ان کے علم و ہنر کی وجہ سے ہے۔
ان کا چراغ اسی آگ سے روشن ہے۔)
The power of Europe is because of their knowledge and skills
Their lamp is lit because of this fire
حکمت از قطع و برید جامه
مانع علم و هنر عمامه نیست
(ان کی حکمت کا ان کے لباس کی وضع قطع سے کوئی تعلق نہیں۔
عمامہ علم و ہنر کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔)
Their wisdom has nothing to do with their dress
Turban is not a barrier for knowledge and skills
علم و فن را ای جوان شوخ و شنگ
مغز میباید نه ملبوس فرنگ
(اے شوخ جوان! یہ علم و ہنر حاصل کرنے کے لئے
تیز دماغ چاہیے، انگریزوں کا لباس نہیں )
O waggish youth! to get such knowledge and skills
You need a sharp mind, not the western dress
اندرین ره جز نگه مطلوب نیست
این کله یا آن کله مطلوب نیست
(اس کے لئے جزرس نگاہ کی ضرورت ہے۔
اِس ٹوپی یا اُس ٹوپی کی ضرورت نہیں۔)
An insightful eye is needed
This cap or that cap is not required
فکر چالاکی اگر داری بس است
طبع دراکی اگر داری بس است
(اگر تمہاری فکر چالاک ہے تو بس یہی کافی ہے۔
اور اگر تمہاری طبیعت ادراک والی ہے تو بس یہی کافی ہے۔)
If you have smart ideas then that is enough
If you have a perceptive nature then that is enough
علامہ اقبال کی فارسی نظم نمودار میشود روح ناصر خسرو علوی و غزلی مستانه سرائیده غائب میشود سے خوشہ چینی۔
Taken from a Persian poem of Allama Iqbal
Taken from a Persian poem of Allama Iqbal