وہ عجیب سر پھرے آدمی تھے! اپنے مستقبل کا، کیریئر کا، آرام و آسائش کا انہیں کوئی خیال ہی نہیں تھا۔ میں جب سے جاپانی حکومت کے وظیفے پر یہاں پڑھنے آیا ہوں، میرے کئی رشتہ دار اور دوست احباب مجھ پر زور ڈال رہے ہیں کہ تمہارے پاس یہ سنہری موقع ہے، پاکستان واپس جانے کی ضرورت نہیں، پاکستان میں کچھ نہیں رکھا، پڑھائی ختم کرنے کے بعد جاپان میں ہی نوکری شروع کر دینا، خوب پیسہ کمانا، آرام اور آسائش کے ساتھ زندگی گزار دینا۔ اور ایک وہ تھے! جاپان میں ہی پیدا ہوئے، جاپان میں ہی پلے بڑھے، ڈاکٹری کی ڈگری حاصل کی، پھر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر افغانستان کے پہاڑوں اور صحراؤں میں خجل خوار ہونے نکل گئے۔ کیا ان کا کوئی دوست یا رشتہ دار نہیں تھا جو انہیں یہ عقل کی باتیں سمجھاتا؟ انہیں بتاتا کہ جاپان کی آرام دہ زندگی چھوڑ کر افغانستان میں سختیاں جھیلنا کتنی بڑی بیوقوفی ہے؟ مارے گئے ہیں اب وہ بیچارے! چند نامعلوم افراد نے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا۔ جس زمین کی انہوں نے اتنی خدمت کی تھی، اسی زمین میں ان کا خون بھی جذب ہو گیا۔
انہیں تتلیوں کی تلاش تھی۔ وہ پہلی بار پاکستان ۱۹۷۸ء میں آئے۔ جاپان کے شہر فُوکُواوکا سے کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم پاکستان آ رہی تھی۔ وہ اس ٹیم کے ساتھ بطور ڈاکٹر ہو لئے۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی حشرات الارض سے دلچسپی تھی اوران کا خیال تھا کہ پاکستان میں انہیں کچھ نایاب نسل کی تتلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ اس وقت ان کے ذہن میں انسانیت کی خدمت کا خیال نہ تھا۔ لیکن جب وہ اپنی کوہ پیما ٹیم کے ساتھ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں گھومنے پھرنے لگے تو انہوں نے دیکھا کہ وہ جس گاؤں میں بھی جاتے ہیں، وہاں کے لوگ ٹیم کے ساتھ ڈاکٹر کے موجود گی کا علم ہونے پر ان سے اپنا علاج کرانے آ جاتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر ناکامُورا ادھر اپنا پورا کلینک تو نہیں لے کر گئے تھے۔ وہ صرف ان لوگوں کو ابتدائی طبی ا مداد ہی دے سکتے تھے اور اس احساس نے انہیں ضمیر کی خلش میں مبتلا کر دیا۔ انہوں نے بتایا کہ جتنا میرا کسی گاؤں میں استقبال ہوتا تھا ، اتنی ہی مجھے شرمندگی ہوتی تھی کہ میں تو ان لوگوں کی ٹھیک سے مدد بھی نہیں کر سکتا۔
۱۹۸۳ء میں انہوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر پشاور کائی کے نام سے ایک این جی او کی بنیاد رکھی۔ اس سے اگلے سال وہ پشاور کےایک ہسپتال میں کام کرنے لگ گئے جہاں وہ جزام کے مریضوں کا علاج کرتے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کا ادارہ اپنی سرگرمیاں بڑھاتا چلا گیا اور افغان مہاجرین کو طبی امداد دینے لگا۔ کچھ عرصے بعد اس ادارے نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز پاکستان کے بجائے افغانستان کو بنا لیا۔ ڈاکٹر ناکامُورا نے ۱۹۹۱ء میں افغانستان میں اپنا کلینک کھول لیا۔
۲۰۰۰ء میں افغانستان میں شدید قحط پڑ گیا۔ پانی اور خوراک کی کمی سے اموات میں یکدم اضافہ ہو گیا۔ ڈاکٹر ناکامُورا نے اپنے علاقے کے لوگوں سے کہا کہ بس تم زندہ رہ لو، تمہارا علاج میں بعد میں کر لوں گا۔ دوا سے بھوک اور پیاس کا علاج نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے میں نے طب کے شعبے کی حدود سے باہر جانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ کام کرنے کی ٹھانی ہے جس سے لوگوں کو ان کی ضروت کے مطابق کھانا اور پانی مل سکے۔ انہوں نے قحط کے شکار لوگوں کے لئے کنویں کھودنے شروع کر دیے۔ ۲۰۰۳ء میں انہوں نے زرعی آبپاشی کا منصوبہ شروع کیا۔ لیکن وہ کسی عام منیجر کی طرح محض حکم چلانے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے طب کے شعبے سے منسلک ہونے کے باوجود نظام آبپاشی کے بُلیوپرنٹ بنانا سیکھے اور ہیوی مشینری سے کام کرنا سیکھا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ تعمیرِ نو کا آغاز زراعت سے ہوتا ہے، فوجی امور سے نہیں۔ ڈاکٹر ناکامُورا نے ۱٦۰۰ سے زائد کنویں کھود ے۔ ان کا سب سے بڑا منصوبہ دریائے کنڑ پرایک ۲۵ کلومیٹر لمبی نہر بنانا تھا جس سے ۱٦ ہزار ہیکٹر رقبہ زیرِ کاشت آیا اور٦ لاکھ لوگوں کو خوراک مہیا ہوئی۔ انہوں نے افغانستان کے صوبے ننگرہار میں لق و دق بنجر صحرا کو گھنے جنگل اور لہلاتے کھیتوں میں بدل ڈالا۔ افغانی انہیں اپنا محسن ماننے لگے اور انہیں پیار سے ناکامُورا کی جگہ کاکا مراد (مراد انکل) کہنے لگے۔
ڈاکٹر ناکامُورا کی ۲۵ کلومیٹر لمبی نہر جس کے دونوں طرف کھیت لہلہا رہے ہیں |
اوپر والی تصویر ۲۰۰۹ء کی ہے اور نیچے والی ۲۰۱۳ء کی۔
چار سال کی قلیل مدت میں اس علاقے میں سبز انقلاب آ گیا۔ |
ڈاکٹر ناکامُورا کے کریڈٹ پر سینکڑوں تحقیقی مقالے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے افغانستان کی معاشی اور طبی بحالی کے اوپر ۱۰ کتابیں تحریر کی ہیں۔ ۲۰۰۳ء میں فلپائن نے انسانیت کے لئے خدمات کے اعتراف میں انہیں رامون میگسیسے انعام سے نوازا۔ اس انعام کو ایشیا کا نوبل پرائز بھی کہا جاتا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے انہیں اکتوبر ۲۰۱۹ء میں افغانستان کی اعزازی شہریت عطا کی۔ وہ افغان شہریت حاصل کرنے والے پہلے غیر ملکی تھے۔
۴ دسمبر ۲۰۱۹ء کو ان پر جلال آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ چار مسلح افراد نے ان کی گاڑی کو دونوں طرف سے گھیرے میں لے کر گولیاں برسائیں۔ان کی فائرنگ سے ڈاکٹر ناکامُورا کے ڈرائیور اور باڈی گارڈز سمیت پانچ افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے اور ڈاکٹر ناکامُورا شدید زخمی ہوئے۔ ان کے سینے کے دائیں جانب گولیاں لگی تھیں۔ انہیں فورأ جلال آباد کے ایک ہسپتال لے جایا گیا جہاں ان کا آپریشن کر کے گولیاں نکال لی گئیں۔ لیکن ان کی نازک حالت کے پیشِ نظر انہیں ہیلی کاپٹر کے ذریعے کابل میں بگرام کے امریکی فوجی اڈے کے ہسپتال میں شفٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وہ یہ سفر طے نہیں کر سکے اور راستے میں ہی ان کی وفات ہو گئی۔ ان کی عمر ۷۳ برس تھی۔
سوچتا ہوں کہ ان پر گولیاں چلاتے ہوئے ان قاتلوں کا ہاتھ نہیں کانپا ہو گاکہ جس شخص نے اپنی پوری زندگی ان کی قوم کی بہبود کے لئے وقف کر دی اسے وہ یوں بے دردی سے قتل کر رہے ہیں؟ ابھی تک ان پر حملے کی ذمہ داری کسی گروہ نے قبول نہیں کی اور ہر ایک نے مذمتی بیان ہی جاری کئے۔ سوچتا ہوں کہ جس شخص نے اتنے سال حالتِ جنگ میں افغانستان میں گزار دیے اور افغانی عوام کی خدمت کی، اسے اب جنگ کے خاتمے پر یوں ہلاک کرنے کا کیا مقصد ہو سکتاہے؟ شاید کچھ طاقتیں افغانستان میں امن قائم ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی اور امن مذاکرات کو، امریکی افواج کے انخلاء کو زیادہ سے زیادہ دیر تک لٹکانا چاہتی ہیں تاکہ خطے کی موجودہ صورتحال برقرار رہے۔ واللہ اعلم۔
ڈاکٹر ناکامُورا خود تو چلے گئے لیکن وہ ہمارے لئے بہت سے سوال چھوڑ گئے۔ وہ کتنے عظیم تھے جو ایک ماڈرن ترقی یافتہ ملک میں آرام دہ زندگی چھوڑ کر تپتےریگزاروں میں پھرتے رہے اور ایک غیر ملک کے، غیر مذہب کے لوگوں کی خدمت میں زندگی گزار دی۔ اور ہم کتنی پست ذہنیت رکھتے ہیں کہ ہم شعور کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی باہر جانے کے شوق پالنے لگتے ہیں، لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے نہیں بلکہ پیسے کے لئے، آسائش بھری زندگی کے لئے، بڑے بڑے گھروں اور بڑی بڑی گاڑیوں کے لئے۔ لیکن شاید صرف ہم ہی ایسے نہیں ہیں۔ پوری دنیا ایساہی سوچتی ہے۔ اپنی ذات سے بالاتر ہو کر لوگوں کی خدمت کرنے کا جذبہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ناکامُورا جیسا سر پھراکوئی کوئی ہی ہوتا ہے۔ لیکن انہی سر پھرے لوگوں کی وجہ سے ہی دنیا قائم ہے اور انسانیت باقی ہے۔ ڈاکٹر تیتسو ناکامُورا آپ کو میرا سلام ہے۔ مجھے آپ جیسے سر پھرے لوگوں سے بہت پیار ہے۔