پیارے مولانا




مولانا مودودی رحمہ اللہ کی دینی خدمات پر ایک نظر

ایک انسان کو اس دنیائے رنگ و بو میں کتنی مہلتِ زندگی ملتی ہے؟ستر برس؟ اسی برس؟ اس میں سے بھی پہلے بیس سال منہا کر لیجئے کہ اس وقت انسانی شعور ناپختہ ہوتا ہے اور فکر و عمل میں بالیدگی اور گہرائی نہیں ہوتی۔ آخر دس سال بھی نکال دیجئے کہ اس عمر میں انسانی قویٰ مضمحل ہو چکے ہوتے ہیں اور عناصر میں اعتدال نہیں رہتا، اس وقت انسان کے اندر اتنی ہمت، سکت اور طاقت نہیں رہتی کہ وہ کوئی بڑا علمی و تحقیقی کام کر سکے۔ لہذا ہر انسان کے پاس کل ملا کر اپنی زندگی کے تقریبأ چالیس سال ہی ہوتے ہیں جس میں وہ اپنی صلاحیتوں کا جوہر منوا سکتا ہے اور دنیا پر اپنے نقوش ثبت کر سکتا ہے۔ انسانی تاریخ ہزاروں برسوں پر محیط ہے اور اس میں ایک انسانی زندگی کی مثال مانندِ حباب ہی ہے۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس قلیل عرصے میں ہی بعض لوگ اتنے بڑے بڑے کام کر جاتے ہیں کہ انہیں صدیوں تک یاد رکھا جاتا ہے- ان کی زندگی کی داستان پڑھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ایک انسان اتنا کام کیسے کر سکتا ہے؟ مولانا مودودی ایسے ہی لوگوں میں شامل ہیں جن کے کام کی مقدار اور معیار دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ سب ایک ہی انسان کی کاوش ہے۔

۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ء کو پیدا ہونے والے سید ابوالاعلٰی مودودی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز ۱۹۲۷ء میں اپنی معرکتہ الآراء تصنیف "الجہاد فی الاسلام" لکھ کر کیا۔ ۲۳ سال کی عمر سے ان کا قلم چلنا شروع ہوا تو ۱۹۷۹ء میں ۷۵ سال کی عمر میں وفات پانے تک بلا تکان چلتا ہی رہا۔ اس عرصے میں مولانا نے ستر سے زیادہ کتابیں قلمبند کیں، تفہیم القرآن جیسی شاندار تفسیر لکھی، جماعتِ اسلامی کی بنیاد رکھی اور اپنی محنت، لگن، حوصلے اور قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے پورے برصغیر میں پھیلایا۔ آج بھی یہ واحد سیاسی جماعت ہے جو بیک وقت پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں کام کر رہی ہے۔ لیکن آج ہمارا موضوع مولانا کی سیاست نہیں لہذا ان کی سیاسی خدمات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ان کی علمی خدمات کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔ 

مولانا مودودی کی سب سے بڑی علمی کاوش ان کی تفسیر "تفہیم القرآن" ہے۔ مولانا نے اسے ۱۹۴۲ء سے ۱۹۷۲ء تک تیس سال کے عرصے میں تصنیف کیا۔ اس تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ اسے علماء، محققین اور دینی تعلیم یافتہ افراد کے بجائے عام لوگوں کو مدِنظر رکھ کر لکھا گیا ہے جو عربی زبان سے ناواقف ہیں۔ قرآن کریم کے لفظی ترجمے کے بجائے آزاد ترجمانی کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے تاکہ روانی برقرار رہے اور قرآن کریم کے ادبی پہلوکا حق بھی کسی حد تک ادا ہو۔ یہ تفسیر نہ تو اتنی طویل ہے کہ قاری تفسیری مباحث میں ہی الجھ کر رہ جائے اور قرآن کریم کا اصل پیغام اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے، اور نہ اتنی مختصر ہے کہ قاری کو تشنگی کا احساس ہو اور قرآن کریم کے کئی دشوار مقامات اسے سمجھ نہ آ سکیں۔ آج یہ تفسیرغالبا اردو زبان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ہے۔ بہت سی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے جن میں انگریزی، ہندی، پشتو، بنگلہ، ملیالم وغیرہ شامل ہیں۔

مولانا مودودی کی تصانیف میں میری پسندیدہ کتاب "سنت کی آئینی حیثیت" ہے۔ اس کتاب میں مولانا نے انکارِ سنت اور انکارِ حدیث کے رجحان پر قلم اٹھایا اور اس فتنے کا مکمل علمی رد کیا۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں محض ایک فریق کا نکتۂ نظر پیش نہیں کیا گیا کہ قاری کو یک رخے مطالعے کی بنیاد پر مسئلہ انکارِ سنت و حدیث پر اپنی رائے قائم کرنے کی ترغیب دی جائے۔ ببلکہ اس کتاب میں مولانا مودودی کی ادارہ "طلوعِ اسلام" کے ایک نامور رکن ڈاکٹر عبدالودود کے ساتھ پے درپے کتابت من و عن درج کی گئی ہے تاکہ قاری پر دوسرے فریق کا موقف اور استدلال بھی واضح ہو جائے اور وہ دونوں فریقین کے موقف کو سامنے رکھتے ہوئے خود اپنی رائے قائم کر سکیں۔ مولانا نے ڈاکٹر صاحب کے اٹھائے ہوئے تمام نکات، اعتراضات اور الجھنوں کا مکمل اور شافی جواب دیا ہے اور منکرینِ سنت وحدیث کی رائے اور رویے کا بودہ پن واضح کر دکھایا ہے۔ 

"قادیانی مسئلہ" مولانا مودودی کی اہم تصانیف میں شامل ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جس کو لکھنے کی پاداش میں مولانا کو ۱۹۵۳ء میں لاہور میں فسادات کے باعث لگائے ہوئے مارشل لاء کے دوران فوجی عدالت سے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس موقع پر مولانا پر ہمت و عزیمت کا رستہ اختیار کیا۔ انہیں اپنے موقف کی حقانیت کا اتنا یقین تھا کہ انہوں نے پھانسی کا پھندا قبول کر لیا اور اپنے موقف سے رجوع کرنے یا رحم کی اپیل کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ اور بات ہے کہ حکومت کو اس سزا پر عمل درآمد کی ہمت نہ ہوئی اور اسے چودہ سال قید بامشقت سے بدل دیا گیا۔ لیکن دو سال بعد ہی پنجاب ہائی کورٹ کے ایک فیصلے کی بدولت آپ رہا ہو گئے۔ اس کتاب میں مولانا نے وہ تمام دلائل جمع کر کے بیان کئے ہیں جن کی بنیاد پر مسلمانِ برصغیر کا ایک طویل عرصے سے یہ دیرینہ مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر انہیں ایک اقلیت کے حقوق دیے جائیں۔ اس کے ساتھ ان تمام اعتراضات اور نکات کا بھی جواب دیا گیا جو اس مطالبے کے خلاف مختلف حلقوں سے اٹھائے جاتے رہے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ مولانا نے اپنے اوپر چلائے گئے مقدمے کی روداد بھی بیان کی ہے،یوں اس کتاب کو ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت بھی حاصل ہو گئی ہے- 

مولانا مودودی کی مشہور کتابوں میں "خلافت و ملوکیت" بھی شامل ہے جس میں مولانا نے اسلام کی سیاسی تعلیمات کو قرآن و سنت کے حوالہ جات کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں اسلام کے اولین دور کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں اور دورِ خلافت ِ راشدہ کے بعد آنے والے ادوار کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ مولانا نے سیاسیاتِ اسلامی پر اپنے بیانیے کی کھل کر وضاحت کی ہے اور ان امور کی نشاندہی کی ہے جن کی بدولت اسلامی حکومت نے خلافت سے ملوکیت تک کا سفر طے کیا۔ لیکن اس کتاب میں کئی مقامات پر محسوس ہوتا ہے کہ مولانا کا قلم چُوک گیا اور ان سے سہو ہوئی ہے۔ بعض مضامین ایسے پیرائے میں بیان ہوئے ہیں کہ ان سے چند صحابہ کرام کی تنقیض کا پہلو نکل آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کتاب پر علمائے کرام کی جانب سے بہت تنقید ہوئی اور یہ کتاب مولانا مودودی کی سب سے متنازعہ کتاب بن گئی۔ جو لوگ اس مضمون سے دلچسپی رکھتے ہیں، انہیں میرا مشورہ ہے کہ وہ خلافت و ملوکیت کے ساتھ حافظ صلاح الدین یوسف کی کتاب "خلافت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت"، اور مفتی تقی عثمانی کی کتاب "حضرت امیر معاویہ اور تاریخی حقائق" کا بھی مطالعہ کر لیں تاکہ انہیں تصویر کے دوسرے رخ کا بھی اندازہ ہو جائے اور وہ تمام دلائل اور حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے اپنی رائے قائم کریں۔

مولانا مودودی کے پیغام کا نچوڑ مجھے ان کی کتاب "قرآن کی چار بنیادی اصطلاحات" میں نظر آتا ہے۔ مولانا مودودی نے اس کتاب میں قرآن کریم کا انقلابی پہلو واضح کیا ہے جس کی وجہ سے اونٹ چرانے والے بدو آدھی دنیا کے حاکم بن گئے تھے۔ آج ہم جس زوال کا شکار ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے قرآن سے رہنمائی لینا چھوڑ دی ہے۔ ہماری قوم کی اکثریت قرآ ن کے پیغام سے ناآشنا ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگ قرآن کی تلاوت محض حصولِ ثواب کے لئے کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اپنی آخری کتاب کیا تعلیمات دی ہیں؟ قرآن ہمارے لئے ہدایت کا منبع ہے، یہ ہمارے ایمان کا سرچشمہ ہے اور یہ ہماری فلاح کا ذریعہ ہے۔ مسلم امہ اس وقت تک ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن نہیں ہو سکتی جب تک یہ اپنا رشتہ دوبارہ قرآن سے استوار نہ کر لے۔ اسلامی نشاطِ ثانیہ کی منزل کی طرف یہ کتاب ہمارے اولین قدموں میں سے ایک ہے۔ الٰہ، رب، دین اور عبادت قرآن کریم کی چار بنیادی اصطلاحات ہیں۔ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہوئے ہم بارہا ان الفاظ کو اپنے سامنے پاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس بات سے ناواقف ہو کہ اللہ تعالٰی کے الٰہ اور رب ہونے کا حقیقی مطلب کیا ہے؟ عبادت کی حقیقی تعریف کیا ہے اور یہ کن کن امور کا احاطہ کرتی ہے؟ اور دین کسے کہتے ہیں اور اس میں اور مذہب میں کیا فرق ہوتا ہے؟ تو ایسے شخص کے لئے قرآن کریم سے ہدایت پانا ممکن نہ ہو گا۔ وہ نہ توحید کو سمجھ سکے گا، نہ شرک سے بچ سکے گا، نہ عبادت کو اللہ کے لئے خالص کر سکے گا اور نہ اللہ کے دین کو مکمل سمجھ کر اس پر عمل کر سکے گا۔ مولانا مودودی نے اس کتاب میں ان چار اصطلاحات کا مفہوم کھول کر رکھ دیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ لینے کے بعد انسان پر قرآن کریم کے معنی و مفہوم کا ایک نیا جہاں آشکار ہو جاتا ہے۔

مولانا مودودی کا ہم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے انہوں نے ہمیں اسلام کا درست تصور ازسرِ نو روشناس کرایا۔ صدیوں کی غلامی اور مغربی فکر و تہذیب کے غلبے کے بعد مسلمانوں کے ذہن سے یہ تصور فراموش ہو چکا تھا کہ اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکمل دین ہے۔ یہ صرف چند عقائد، عبادات اور رسوم و رواج کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ اجتماعی امور مثلأ سیاست، عدالت، معاشیات اور معاشرت سمیت انسانی زندگی کے تمام امور کا احاطہ کرتا ہے، رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اپنا غلبہ چاہتا ہے۔ مولانا مودودی کی جدوجہد غلبۂ دین کی جدوجہد تھی، اقامتِ دین ان کی زندگی کا مشن تھا۔ مولانا مودودی کا کمال یہ ہے کہ وہ اسلام کو مدرسوں اور دارالعلوموں کی حدود سے نکال کر کالجوں اور یونیورسٹیوں تک لے آئے۔ ان اداروں میں پڑھنے والے لاکھوں نوجوان ان کی فکر سے متاثر ہوئے اور اپنی زندگیوں کو اسلام کے قالب میں ڈھالتے چلے گئے۔ مولانا مودودی نے جدید تعلیم یافتہ ذہن میں اٹھنے والے شکوک و شبہات کا ازالہ اپنی تحریر اور تقریر کے ذریعے بطریقِ احسن کیا جس کی وجہ سے نوجوان آپ کے گرویدہ ہوئے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، آج بھی لاکھوں مسلمان مولانا کی تحاریر سے مستفید ہو رہے ہیں اور مولانا کے لئے صدقۂ جاریہ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

مولانا مودودی کی اہمیت ک اندازہ لگانے کے لئے کیا یہ بات کیا کم ہے کہ ان کے اثر سے کوئی محفوظ نہ رہا۔ آج پاکستان میں آپ کو یا تو مولانا کے ناقدین ملتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں شدت پسندی کا رجحان بڑھنے کی وجہ مولانا مودودی کی تعلیمات ہیں، مولانا دین کو سیاست میں لانے کے مجرم ہیں، مولانا کی جماعت نے رجعت پسندی کو فروغ دیا اور اس کی طلبہ تنظیم نے ڈنڈے کے زور پر کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تفریح کے تمام ذریعے روک دیے۔ یا پھر آپ کو ان کے عشاق ملتے ہیں جو ان کی خدمات کے معترف ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک اسلامی ملک بنانے میں سب سے زیادہ کردار مولانا کا ہے، یہ مولانا مودودی ہیں جنہوں نے اسلام کو ایک ساکن عقیدے سے ایک متحرک تحریک بنا دیا، جنہوں نے اسلام کو مسجد و مدرسے سے نکال کر سکول اور کالجوں کے نوجوانوں تک پہنچا دیا، جنہوں نے دین کو ایک زندہ قوت بنا دیا،مسلمانوں کے احساس کمتری اور مغرب کی مرعوبیت کو کم کرنے میں مدد دی اور ہمیں یہ بتایا کہ دین بیسویں صدی عیسوی میں بھی اسی طرح قابلِ عمل ہے جیسے آج سے چودہ سو سال قبل تھا۔ جنہوں نے ایک طرف مغربی استعمار و افکار کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کے مقابلے میں اسلام کی تعلیمات کو پیش کیا۔ اور دوسری طرف سرخ سویرے کے خونخوار ریچھ کو، جو پورے ایشیا کو روندتا ہوا، اسے خونِ ناحق کے دریاؤں سے سرخ کرتا ہوا ہمارے پڑوس تک پہنچ گیا تھا، روک کر اس کا زور توڑا اور اسے ایسی فکری شکست ہوئی کہ اب وہ اپنے برف زار مسکن میں بھی ٹھکانہ نہیں ڈھونڈ پاتا۔

قائداعظم کو مولانا مودودی کے تبحرِ علمی کا بخوبی اندازہ تھا۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے قیام کے بعد انہوں نے آپ کو ہدایت کی کہ ریڈیو پاکستان پر اپنے خطابات کا ایک سلسہ شروع کریں اور عوام پر اسلامی ریاست کے خدوخال واضح کریں۔ یوں مولانا مودودی نے ریڈیو پاکستان کے ذریعے قائداعظم کے تصورِ پاکستان کی تشریح کی۔علامہ اقبال بھی مولانا مودودی کے بڑے قدردان تھے۔ انہوں نے مولانا کی "کتاب الجہاد فی الاسلام" کی بہت تعریف کی اور اسے اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر ایک بہترین تصنیف قرار دیا اور اہل علم کو اس کے مطالعہ کا مشورہ دیا۔ علامہ اقبال ہی کی سفارش پر چوہدری نیاز علی نے پٹھانکوٹ میں اپنی ۷۰ ایکڑ زمین مولانا مودودی کے حوالے کی جہاں ادارہ دارلاسلام قائم کیا گیا۔ مولانا مودودی کو بعد از وفات ان کی اسلام کے لئے خدمات کے اعتراف میں شاہ فیصل انعام سے نوازا گیا۔ وہ یہ انعام پانے والے دنیا کے پہلے فرد تھے۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ خانہ کعبہ میں ادا کی گئی۔ ان سے پہلے یہ اعزاز صرف حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو نصیب ہوا تھا۔ 

مولانا مودودی ہمارے محسن ہیں، مولانا مودودی ہمارا فخر ہیں، مولانا مودودی ہمارا سرمایہ ہیں۔ مولانا مودودی کو گزرے آج چار دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن ان کی تحریر کی تازگی آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہے۔ مولانا مودودی ایک عظیم مفکر، صاحبِ طرز ادیب، پرعزم قائد اور خادمِ اسلام ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے مسلمانوں کو ان کا بُھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ صدیوں کے فرنگی تسلط کی بدولت ہمارے ہاں مغربی افکار کا جو رعب و دبدبہ قائم ہو گیا تھا، اسے ختم کر کے اسلامی افکار کا اذہان پر تسلط دوبارہ قائم کیا۔ یوں مسلمانوں کو جسمانی آزادی حاصل ہونے کے بعد مغرب سے ذہنی آزادی حاصل کرنے میں بھی بڑی مدد ملی۔ اگرچہ مولانا کا مشن ابھی نامکمل ہے، نہ پاکستان ویسی اسلامی مملکت بن پایا ہے اور نہ ہماری قوم کے قلوب و اذہان کے اندر قرآن و سنت کا پیغام راسخ ہو پایا ہے، لیکن یہ عظیم مشن جب بھی مکمل ہو گا، مولانا کا نام اس کے بانیوں میں لکھا جائے گا۔ اس چمن میں جتنے پھول کھلیں گے وہ مولانا کی تیار کردہ زرخیز زمین سے ہی نمو پاتے رہیں گے۔ اللہ رب العزت مولانا کے درجات بلند فرمائیں، ان کی خطاؤں سے درگزر کریں اور انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائیں۔ آمین۔

آخر میں میں مولانا مودودی کے چند اقوال نقل کرنا چاہوں گا جن سے مجھے رہنمائی ملتی رہتی ہے اور ایمان تازہ ہوتا رہتا ہے:

  1. مسلمان کہتے ہی اس کو ہیں جو خدا کے سواء کسی کا بندہ اور رسول کے سواء کسی کا پیرو نہ ہو۔ مسلمان وہ ہے جو سچے دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ خدا اور رسول کی تعلیم سراسر حق ہے، اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ باطل ہے اور انسان کے لئے دین و دنیا کی بھلائی صرف خدا اور اس کے رسول کی تعلیم میں ہے۔ اس بات پر کامل یقین جس شخص کو ہو گا وہ اپنی زندگی کے ہر معاملہ میں صرف یہ دیکھے گا کہ اللہ اور رسول کا کیا حکم ہے۔ اور جب اسے حکم معلوم ہو جائے گا تو سیدھی طرح سے اس کے آگے سر جھکا دے گا۔ پھر چاہے اس کا دل کتنا ہی تلمائے اور خاندان کے لوگ کتنی ہی باتیں بنائیں، اور دنیا والے کتنی ہی مخالفت کریں وہ ان میں سے کسی کی پروا نہ کرے گا، کیونکہ ہر ایک کو اسکا صاف جواب یہی ہو گا کہ میں خدا کا بندہ ہوں، تمہارا بندہ نہیں ہوں اورمیں رسول پر ایمان لایا ہوں، تم پر ایمان نہیں لایا ہوں ۔ (خطبات، ایمان کی کسوٹی، ص۷۰-۷۱)
  2. یہ شریعت بزدلوں اور نامردوں کے لئے نہیں اتری ہے۔ نفس کے بندوں اور دنیا کے غلاموں کے لئے نہیں اتری ہے۔ ہوا کے رُخ پر اڑنے والے خس و خاشاک، اور پانی کے بہاؤ پر بہنے والے حشرات الارض اور ہر رنگ میں رنگ جانے والے بے رنگوں کے لئے نہیں اتری ہے۔ یہ ان بہادر شیروں کے لئے اتری ہے جو ہوا کا رُخ بدلنے کا عزم رکھتے ہوں، جو دریا کی روانی سے لڑنے اور اس کے بہاؤ کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں، جو صبغت اللہ کو دنیا کے ہر رنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں اور اسی رنگ میں تمام دنیا کو رنگ دینے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ (تنقیحات،کیشِ مرداں نہ کہ مذہب گُو سفنداں، ص ۲٦۱-۲٦۲)
  3. نیکی کو نہتا چھوڑ دینا اور اللہ کی دی ہوئی قوتوں کو اس کی حفاظت کے لیے استعمال نہ کرنا صرف خودکشی ہی نہیں بلکہ بدی و شرارت کی بالواسطہ امداد بھی ہے۔ (الجہاد فی الاسلام، مسیحی اخلاقیات کا اصل نقص، ص ۲٦۷)
  4. دین خواہ کوئی سا بھی ہو، لامحالہ اپنی حکومت چاہتا ہے۔ دینِ جمہوری ہو یا دینِ بادشاہی، دینِ اشتراکی ہو یا دینِ الٰہی، یا کوئی اور دین، بہرحال دین کو اپنے قیام کے لئے خود اپنی حکومت کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کے بغیر دین بالکل ایسا ہے جیسے ایک عمارت کا نقشہ آپ کے دماغ میں ہو، مگر عمارت زمین پر موجود نہ ہو۔ (خطبات، جہاد کی اہمیت، ص ۲۷۰-۲۷۱)
  5. رسول کی بعثت کبھی اس غرض سے نہیں ہوئی کہ جو نظام زندگی وہ لے کر آیا ہے وہ کسی دوسرے نظام زندگی کا تابع ہو اور اس سے مغلوب ہو کر اس کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائش میں سمٹ کر رہے ہیں۔ (تفہیم القرآن، جلد دوم، تفسیر سورۃ التوبہ، آیت ۳۳، حاشیہ ۳۲)
  6. میرا عمر بھر کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا میں کبھی وہ طاقتیں زندہ نہیں رہ سکی ہیں جنھوں نے قلعوں میں پناہ لینے کی کوشش کی ہے (مکاتیبِ زنداں از حکیم محمد شریف امرتسری، مولانا مودودی کا خط بنام سید ابوالخیر مودودی، ص ۷٦)
  7. انسان کی زندگی کا مقصد زمین پر خدا کی مرضی پورا کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے (اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۱۴۳)
  8. اخلاقی طاقت کی فراوانی مادی وسائل کے فقدان کی تلافی کر دیتی ہے۔ (تنقیحات، مسلمان کی طاقت کا اصل منبع، ص ۲۴۲)
  9. خالص مادی ترقی جس میں روحانیت کا کوئی حصہ ہو انسان کو کبھی مطمئن نہیں کر سکتی (اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، زندگی کا نصب العین، ص ٦٦)
  10. جو شخص خدا کے حقوق ادا کرنے میں تساہل برتتا ہے وہ بندوں کے حقوق ادا کرنے میں کیسے مستعد ہو سکتا ہے؟ (استفسارات، جلد سوئم، ص ۴۰۱)
  11. قرآنی تعلیم کے مطابق انسان کی سب سے بڑی ذلت یہ ہے کہ وہ اپنے عیش و آرام یا مال و دولت یا اہل و عیال کی محبت میں مبتلا ہوکر حفاظتِ حق کی سختیوں سے ڈرنے لگے اور باطل کو طاقتور دیکھ کر اس کی غلامی قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جائے۔ ( الجہاد فی الاسلام، مدافعانہ جنگ، ص ۳۰)
  12. اہل حق کی کامیابی یہ ہے کہ وہ حق پر قائم رہیں۔ (5۔اے ذیلدار پارک، ص ۴۰)