عیسائیوں کے نزدیک ان کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ان کے نبی کی پیدائش ہے۔ اس لئے عیسوی کیلنڈر کا آغاز حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے ہوتا ہے اور وہ ہر سال اپنے نبی کی پیدائش کا جشن مناتے ہیں۔ مسلمانوں کے نزدیک نبی کی پیدائش سے زیادہ اہمیت نبی کے مشن کی ہے۔ اس لئے اسلامی کیلنڈر کا آغاز نبی اکرم صلی الله وسلم کی ہجرت سے ہوتا ہے جب نبی کا مشن ایک نئے دور میں داخل ہوا اور ریاستِ مدینہ قائم ہوئی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا جشن سب سے پہلے اربیل کے حکمران مظفرا لدین نے چھٹی صدی ہجری میں منانا شروع کیا تھا۔ اسلام کے پہلے پانچ سو سالوں میں، جو کہ اس امت کے بہترین سال ہیں، جب مسلمان اپنے عروج پر تھے، آدھی دنیا کے حکمران تھے، اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن آگے بڑھا رہے تھے، اسلام کا پیغام دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا رہے تھے، ان پانچ سو سالوں میں ہمیں اس جشن کا سراغ نہیں ملتا۔ جن لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی امت کے بہترین افراد قرار دیا، وہ لوگ یہ جشن منانے کی سعادت سے محروم رہ گئے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سب سے بہتر میرا زمانہ ہے (صحابہ کرام)، اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس کے بعد ہوں گے(تابعین) پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے (تبع تابعین)اور اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے۔ (صحیح بخاری: ۸۱/۱۸، صحیح مسلم: ۴۴/۲۹۸)
صحابہ کرام، تابعین عزام اور تبع تابعین کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئیں، ان لوگوں نے ہی نبی کے مشن کو پسِ پشت ڈال کر عیسائیوں کی مانند نبی کی ولادت کا جشن منانے کی روایت ڈالی۔ خود عیسائیوں کے اندر بھی پہلی تین صدیوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت کا دن منانے کا تصور نہ تھا اور کرسمس نام کا کوئی تہوار نہ تھا۔ مسلمانوں کی طرح عیسائیوں میں بھی اپنے نبی کی پیدائش کے دن کے متعلق اختلاف ہے۔ ہمارے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں جس کی بنیاد پر ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکیں کہ عیسٰی علیہ السلام واقعی ۲۵ دسمبر کو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم واقعی ۱۲ ربیع الاول کو پیدا ہوئے تھے۔ عیسائیت کے اولین دور میں ان کا مرکزی تہوار ایسٹر ہوا کرتا تھا۔ پھر چوتھی صدی عیسوی میں چرچ کے اہلکاروں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا دن منانے کا آغاز کیا اور یوں کرسمس منانے کی روایت شروع ہوئی۔ اسی طرح قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے دنیا سے اٹھ جانے کے بعد قرون وسطیٰ کے مسلمانوں نے عیسائیوں کی پیروی کرتے ہوئے اپنے نبی کی ولادت کا جشن منانا شروع کیا۔ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ ہم یہودیوں اور عیسائیوں کی نقالی کریں گے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے ۔ یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے ۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں ؟ فرمایا پھر اور کون ۔(صحیح بخاری: ۹٦/۵۰، صحیح مسلم: ۴۷/۷، سنن ابن ماجہ:۳٦/٦۹ )
ہمارے پیارے دین کا تو یہ مزاج ہی نہیں ہے کہ کسی شخص یا کسی واقعہ کی یاد سال میں ایک دن منا کر کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دنیا میں ٦۳ سال گزارے۔ ان ٦۳ سالوں میں آپ پر رنج و مسرت کے بہت سے اہم واقعات گزرے۔ لیکن ہمیں سنت سے ایسی ایک بھی روایت نہیں ملتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان واقعات کی یاد میں ہر سال کوئی دن منایا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ اپنی ولادت، آپ کے چار بیٹیوں اور تین بیٹوں کی ولادت، آپ کی تین بیٹیوں اور تینوں بیٹوں کی وفات، آپ کی مددگار غمخوار بیوی کی وفات، آپ کے والدین اور دو ہمدرد چچاؤں کی وفات و شہادت، بدر و احد و حنین و فتح مکہ جیسے بڑے غزوات۔ غرض ایسے درجنوں واقعات ہیں جن کی اپنی اپنی حیثیت بہت بڑی ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ کی اپنی ذات کے لئے ان کی اہمیت مسلمہ ہے۔ لیکن نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود، اور نہ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے ان کے بعد ان واقعات کی یاد منانے کے لئے سال کا کوئی دن مقرر کیا۔
ہمارے دین میں اہمیت کسی شخصیت کی ولادت و وفات یا کسی واقعے کے رونما ہونے کے دن کی نہیں ہے۔ بلکہ اصل حیثیت، اصل اہمیت اس پیغام کی ہے جو وہ شخصیت لے کر آئی، اور اس سبق کی ہے جو اس واقعے سے ہم سیکھتے ہیں اور اپنے اخلاق و کردار کو بہتر بناتے ہیں ۔اگر آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کچھ نہ سیکھا، ان کی ہدایات اور احکامات پر عمل نہ کیا اور ان کے اخلاق و کردار پر اپنے اخلاق و کردار کو نہ ڈھالا تو پھر آپ سال میں ایک دن کیا، سال کے ہر دن بھی جشن منا لیں تو بھی آپ کو اس کا ایک کوڑی کا بھی فائدہ نہ ہو گا اور نبی کی محبت کے آپ کے تمام دعوے جھوٹے ہوں گے۔ یہ محبت سہل نہیں، یہ عشق آساں نہیں، یہ ہمت مانگتا ہے،محنت چاہتا ہے، یہ قربانی طلب کرتا ہے، وقت کی بھی، مال کی بھی اور جان کی بھی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں؟ صحابہ کرام تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے لئے اپنا وقت بھی لگائیں، مال بھی دیں اور اپنی جانیں بھی قربان کریں اور آپ سال میں ایک دن منا کر خوش ہو جائیں کہ ہم نے نبی کی محبت کا ثبوت دے دیا؟
ہمارے ہاں تو اب اس جشن کے نام پر ایک طوفانِ بدتمیزی برپا کیا جا تا ہے۔ گانا بجانااور ناچ چل رہا ہوتا ہے۔ انڈین گانوں کی دھنوں پر موسیقی کے ساتھ شرکیہ اشعار والی نعتیں گائی جا رہی ہوتی ہیں۔ نماز کے اوقات، قرآن کریم کی تلاوت، سنتِ رسول اور سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطالعے کو چھوڑ کر لوگ ان شرکیہ بولوں اور موسیقی کی دھنوں پر جھومے جا رہے ہوتے ہیں۔ مرد وزن آزادانہ گھل مل رہے ہوتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ میرے پیارے نبی کے نام پر، اسلام کے نام پر ہو رہا ہوتا ہے۔ یہ سب دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے اور اللہ تعالٰی کے عذاب کا خوف آنے لگتا ہے۔ میرے بھائیوں اور بہنوں! یہ اسلام نہیں ہے! اللہ تعالٰی کی قسم یہ اسلام نہیں ہے!
اگر آپ کو اللہ تعالٰٰی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعی محبت ہے تو پھر ان کی کامل اتباع کریں۔ اطاعت اور اتباع کے بغیر محبت کے دعووں کی کوئی حیثیت نہیں۔ اگر نوافل پر عمل کرنے کی سکت نہیں تو کم ازکم اپنے فرائض تو ادا کریں نا! نماز ہم پڑھتے نہیں، زکوٰۃ ہم دیتے نہیں، سُود ہم چھوڑتے نہیں، رشوت کے بغیر کام ہم کرتے نہیں، ملاوٹ سے ہماری کوئی چیز پاک نہیں، جھوٹ بولنا ہماری عادت ہے، دھوکہ دینا ہماری خصلت ہے، ہمارے کسی وعدے کا کوئی اعتبا ر نہیں، تو پھر اللہ اور نبی کی محبت کے دعوے کا کیسے اعتبار کیا جا سکتا ہے؟؟
اللہ تعالٰی نے فرمایا: (اے پیغمبر)آپ فرمادیجئیے کہ اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمھارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے اور الله تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑے عنایت فرمانے والے ہیں۔ (آل عمران: ۳۱)
اگر ہم واقعی اسلام پر چلنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے قرآن و سنت کو پڑھنے، سمجھنے اور اس پر عمل کئے بنا اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ ہم نے اسلام کو ایسے ہی سمجھنا ہے جیسے اسے صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے سمجھا اور آگے لوگوں کو سکھایا۔ جن چیزوں پر انہوں نے عمل کیا، ہم نے بھی انہی پر عمل کرنا ہے ۔ اور جن کاموں سے وہ رک گئے ہم نے بھی ان سے رک جانا ہے۔ اس امت مسلمہ کی نشاۃِ ثانیہ اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک یہ صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے رستے پر نہ چلے۔
امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا تھا: لَا يَصْلَحُ آخِرُ هـَذِهَ الْاُمَّةِ إِلَّا بِمَا صَلَحَ بِهِ أَوَّلُهـَا۔ اس امت کے آخری حصے کی اصلاح صرف اسی طرح ہو سکتی ہے جیسے اس امت کی اول حصے کی اصلاح ہوئی تھی۔ (اقتداء صراط المستقیم: ۲/۷٦۳)
اھدناالصراط المستقیم۔ صراط الذین انعمت علیھم۔ غیر المغضوب علیھم ولا الضالین۔
ہر شخص اپنے اعمال کے لئے خود جواب دہ ہے۔ یہ فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے کہ آیا ہم نے ان لوگوں کی راہ پر چلنا ہے جنہوں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی اور ان کے مشن کو آگے بڑھایا؟ یا ان لوگوں کی پیروی کرنی ہے جنہوں نے صرف جشن منایا؟
پسِ تحریر: یہ مضمون دلیل ڈاٹ پی کے پر ۲٦ نومبر ۲۰۱۹ء کو شائع ہو چکا ہے۔ https://daleel.pk/2019/11/26/121310
پسِ تحریر: یہ مضمون دلیل ڈاٹ پی کے پر ۲٦ نومبر ۲۰۱۹ء کو شائع ہو چکا ہے۔ https://daleel.pk/2019/11/26/121310