وکی لیکس والا وکی



ابھی جمیل فاروقی صاحب کے پروگرام کا ایک کلپ دیکھا ہے جس میں ایک مفتی صاحب فرما رہے ہیں کہ وکی لیکس والا وکی جمائما کا کزن ہے۔ پھر وسیم بادامی صاحب کے پروگرام کا کلپ دیکھا جس میں یہی مفتی صاحب کمال ڈھٹائی سے اس بات کا دفاع فرما رہے ہیں۔ میزبان کے استفسار پر وہ تسلیم بھی کرتے ہیں کہ یہ میرا اندازہ ہے (یعنی اس بارے میں کوئی حتمی معلومات نہیں ہیں)، میں آپ کو جواب تحقیق کر نے کے بعد دے دوں گا۔ تو الله کے بندے! یہ تحقیق اپنی زبان کھولنے سے پہلے کرنی تھی نا۔ بلا تحقیق محض ایک سنی سنائی بات پوری قوم کے سامنے بیٹھ کر اپنی منہ سے کیوں نکالی؟ ایسی بات کیوں کی جس کے بارے میں آپ کو کوئی علم ہی نہیں تھا؟؟


وَلَا تَقۡفُ مَا لَيۡسَ لَكَ بِهِۦ عِلۡمٌ‌ۚ إِنَّ ٱلسَّمۡعَ وَٱلۡبَصَرَ وَٱلۡفُؤَادَ كُلُّ أُوْلَـٰٓٮِٕكَ كَانَ عَنۡهُ مَسۡـُٔولاً۬
ور جس بات کا تمہیں (پکا) علم نہ ہو اس پر عمل درآمد مت کیا کرو کیونکہ کان اور آنکھ اور دل ہر شخص سے ان سب کی (قیامت کے دن) پوچھ ہو گی۔ (الاسراء:۳٦)

اگر آپ نے کہیں سے یہ بات سن لی تھی تو کیا آپ کا یہ فرض نہیں بنتا تھا کہ پہلے اس کی چھان بین کر لیتے؟بغیر تحقیق کئے اس طرح بے پر کی اڑا دینا کیا ایک عالم کو زیب دیتا ہے؟


يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِن جَآءَكُمۡ فَاسِقُۢ بِنَبَإٍ۬ فَتَبَيَّنُوٓاْ أَن تُصِيبُواْ قَوۡمَۢا بِجَهَـٰلَةٍ۬ فَتُصۡبِحُواْ عَلَىٰ مَا فَعَلۡتُمۡ نَـٰدِمِينَ
اے ایمان والو! اگر کوئی بدکردار تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کرلیا کرو (مبادا) کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو۔ پھر تم کو اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے (الحجرات: ٦)


جب سے یہ دونوں وڈیو کلپ دیکھے ہیں، میں اپنا سر پکڑے بیٹھا ہوں۔ یہ بات کسی عام شخص نے دوستوں کی محفل میں کی ہوتی تو اسے ہنسی مذاق میں اڑایا جا سکتا تھا۔ لیکن یہ بات پاکستان کی سب سے بڑی دینی جماعت کے ایک ممتاز رہنما نے سب کے سامنے ٹی وی پر بیٹھ کر کی ہے۔ یہ میرے لئے مذاق اڑانے کا نہیں بلکہ رنج اور افسوس کرنے کا مقام ہے۔


اس ایک جملے سے ہماری مذہبی جماعتوں کی ذہنی سطح اور کردار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب سرِ عام ایسی بات کی جا رہی ہے تو یہ لوگ اپنی ذاتی محفلوں میں کیا کیا کہتے ہوں گے؟ جب بڑے رہنما بھری محفل میں بلا تکلف بلا ثبوت ایسی باتیں کر جاتے ہوں، تو ان کے عام کارکن اگر بلا تکلف بلا ثبوت لوگوں کو یہودی ایجنٹ، گستاخَ رسول اور کافر تک قرار دے ڈالتے ہوں تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے؟ ان لوگوں کو تو شاید یہ احساس بھی نہ ہو کہ یہ کتنا بڑا الزام لگا رہے ہیں، اور جس اسلام کا یہ خود کو ٹھیکیدار سمجھتے ہیں اس میں کسی پر بہتان لگانا کتنا بڑا گناہ ہے؟ اگر کوئی شخص کسی پر بغیر ثبوت کوئی الزام تراشی کرتا ہے تو یہی بات اس کے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے۔

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱجۡتَنِبُواْ كَثِيرً۬ا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعۡضَ ٱلظَّنِّ إِثۡمٌ۬‌ۖ
اےایمان والو! بہت گمان کرنے سے احتراز کروکیونکہ بعض گمان گناہ ہیں (الحجرات: ۱۲)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کر دے ۔ (صحیح مسلم: ٦)

پچھلی چند صدیوں میں جہاں ہمارے دیگر علوم و فنون زوال کا شکار ہوئے ہیں، ویسے ہی ہمارے علومِ اسلامیہ بھی پہلے جمود اور پھر زوال کا شکار ہوئے۔ یہاں امام غزالی اور امام ابن تیمیہ رحمہ الله جیسے علمائے کبیر پیدا ہونے کب کے بند ہو چکے۔ اب تو یہاں بونوں کا دوردورا ہے جو خود کو بڑے بڑے القابات سے یاد کروانے اور دوسروں کی پگڑیاں کھینچنے میں عمر گزار دیتے ہیں۔اقبال نے تین سو سال سے ہند کے میخانے بند ہونے کا شکوہ کیا تھا، اور اب اقبال کو بھی گزرے ایک سو سال ہونے کو آ رہے ہیں۔

ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذّتِ کردار، نہ افکارِ عمیق
حلقۂ شوق میں وہ جُرأتِ اندیشہ کہاں
آہ محکومی و تقلید و زوالِ تحقیق!

ذرا ٹھنڈے دل سے جائزہ لیجئے کہ آج اگر علومِ اسلامیہ زوال کا شکار ہیں تو اس میں ہم اور ہمارا معاشرہ کتنا ذمہ دار ہے؟ کیا ہم نے علومِ اسلامیہ کو وہ اہمیت دی ہے جو اس کا حق ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ذہین ترین افراد انجینیرئنگ اور طب جیسے شعبوں سے وابستہ ہو کر دنیا کمانے کی فکر میں لگ جاتے ہیں اور اپنی ساری صلاحیتیں اسی میں کھپا دیتے ہیں۔ اسلام کے حصے میں تو وہی لوگ آتے ہیں جو دنیاوی علوم میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ جو بچہ بار بار کوشش کے باوجود سکول میں کامیابی حاصل نہ کر سکے اسے مدرسوں کی نذر کر دیا جاتا ہے اور اسے اسلام کی خدمت سمجھا جاتا ہے۔ اور یہی رویہ ہمارا صدقہ و خیرات کرتے ہوئے بھی ہوتا ہے۔ اپنے لئے چیز لیتے ہیں تو اچھی سے اچھی لیتے ہیں، جب اللہ تعالٰی کے لئے چیز دیتے ہیں تو پھٹی پرانی اور بوسیدہ جسے اگر کوئی ہمیں دینا چاہے تو ہم اسے کبھی قبول نہ کریں۔ ہم کیا سمجھتے ہیں؟ ایسی چیزیں صدقہ کرنے سے ہم نیکی پا لیں گے؟


لَن تَنَالُواْ ٱلۡبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُواْ مِمَّا تُحِبُّونَ‌ۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَىۡءٍ۬ فَإِنَّ ٱللَّهَ بِهِۦ عَلِيمٌ۬
(مومنو!) جب تک تم ان چیزوں میں سے جو تمھیں عزیز ہیں (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کرو گے کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم خرچ کرو گےاللہ اس کو جانتا ہے (آل عمران: ۹۲)

جب دین کے لئے ہماری اِن پُٹ ایسی ہو گی تو آؤٹ پُٹ بھی پھر ویسی ہی آنی ہے جیسی ہم دیکھ رہے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ کی بات یاد آتی ہے کہ اللہ نے اس دنیا کو جن قواعد اور اصولوں پر بنایا ہے وہ یہ نہیں ہیں کہ اللہ اپنی طاقت سے حق کو غالب کردے گا۔اگر اپنی طاقت سے کرنا ہو تو پھر تو باطل آنِ واحد میں ختم ہو جائے گا۔ یہ تو آزمائش ہے انسان کی۔ وہ کشمکش میں مبتلا ہو، وہ قربانیاں دے، وہ ثابت کرے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اپنا تن من دھن اللہ کے لئے لگا سکتا ہو ں۔ لہذ اگر اہلِ ایمان بیٹھے رہیں گے، ان کےذہین تر عناصر اس دعوت و تبلیغ میں نہیں لگیں گے بلکہ جو بیچارے معاشرے میں پیچھے رہ گئے، جو کہیں دنیا کی دوڑ میں ناکام ہو گئے، جو کسی تعلیم میں نہیں چلا اسے دینی تعلیم کی طرف بھیج دیا۔ اگر یہ کام آپ کریں گے تو گویا آپ نےخود انڈر رائٹ کر دیا دین کی شکست کو۔ دین تو شکست کھائے گا۔ جب تک کہ بہترین صلاحیتیں، اعلٰی ترین ذہانتیں، بہترین استعدادات دین کے لئے نہ لگیں اس نظریاتی تصادم میں،تب تک شکست تو مقدر ہے ہی ہے۔

ہر مد کے بعد جزر آتا ہے اور ہر جزر کے بعد مد۔ قوموں کی تاریخ میں عروج و زوال کا پہیہ مسلسل گردش میں رہتا ہے۔ ایک زندہ قوم دنیا پر حکمرانی کرتی ہے، پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد وہ اپنی اعلٰی صفات کھوتی چلی جاتی ہے اور مردہ ہو جاتی ہے۔ پھر اس کی جگہ ایک اور زندہ قوم دنیا کی حکمرانی کی باگ دوڑ سنبھال لیتی ہے اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ بے شک اس وقت عالمِ اسلام زوال کا شکار ہے۔ لیکن ان شاء اللہ اس کی بھی نشاۃِ ثانیہ ہونی ہے۔ الله تعالٰی کا دین غالب ہو کر رہے گا۔ سوال تو بس یہ ہے کہ آیا یہ سعادت ہمارے حصے میں آتی ہے، ہم اسے قبول کرتے ہیں اور اس کے لئے تن من دھن لگاتے ہیں؟ یا پھر الله تعالٰی ہماری جگہ کسی اور قوم کو لے آتے ہیں جو الله تعالٰی سے کیا ہوا وعدہ نبھائے، اپنی ذمہ داری پوری کرے اور دنیا میں الله کے دین کو غالب کر دے۔


هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرۡسَلَ رَسُولَهُ ۥ بِٱلۡهُدَىٰ وَدِينِ ٱلۡحَقِّ لِيُظۡهِرَهُ ۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِ
(اللہ) وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے باقی تمام ادیان پر غالب کر دے (التوبہ: ۳۳، الفتح: ۲۸، الصف: ۹)

وَإِن تَتَوَلَّوۡاْ يَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَيۡرَكُمۡ ثُمَّ لَا يَكُونُوٓاْ أَمۡثَـٰلَكُم
اور اگر تم منہ پھیرو گے تو وہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے (محمد: ۳۸)