بدعت کیا ہے؟


(یہ مضمون سندائی مسجد جاپان میں انگریزی زبان میں دیے گئے خطبہ جمعہ کا ترجمہ مع اضافہ ہے)

الْحَمْدَ لِلّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِيْنُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنُؤمِنُ بِهٖ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْهِ۔ وَنَعُوذُ بِاللہ مِنْ شُرُوْرِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللہ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَ هَادِيَ لَهُ۔ وَأَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلاَّ اللہ وَحْدَهُ لَا شَرِيْكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنّ مُحَمّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ۔

أَمَّا بَعد ، فَإنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ وَأَحْسَنَ الْهَدْىِ هَدْىُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ وَكُلَّ ضَلاَلَةٍ فِي النَّارِ

اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسۡمِ اللهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِ


مجھے یقین ہے کہ جو الفاظ میں نے ابھی ادا کئے ہیں، آپ سب نے انہیں متعدد بار سن رکھا ہو گا۔ یہ الفاظ ہر خطبے کے آغاز پر کہے جاتے ہیں۔ لیکن اکثر لوگوں کو ان الفاظ کے معنی کا علم نہیں ہوتا، نہ ہی وہ یہ جانتے ہیں کہ یہ الفاظ کیوں کہے جاتے ہیں اور ان الفاظ سے ہمارے ایمان اور عمل پر کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں۔

خطبے کے آغاز میں یہ الفاظ کہنا ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ سنن نسائی میں اس کے متعلق ایک طویل حدیث موجود ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیتے تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے جیسے کہ اس کا حق ہے۔ پھر فرماتے:

مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ إِنَّ أَصْدَقَ الْحَدِيثِ کِتَابُ اللَّهِ وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَکُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ
جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے ہدایت دینے والا کوئی نہیں۔ بیشک سب سے سچی بات اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور (دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی۔

پھر فرماتے میں اور قیامت اتنی قریب ہیں جتنی (میری) یہ دو انگلیاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب قیامت کا ذکر کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسار مبارک سرخ ہوجاتے، آواز بلند ہوجاتی اور غصہ تیز ہوجاتا جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی لشکر سے ڈرا رہے ہوں کہ صبح یا شام کے وقت تم لوگوں کو لشکر لوٹ لے گا۔ (مزید فرماتے کہ) جو شخص مال چھوڑ کر مرے گا وہ اس کے ورثاء کا ہے اور جو شخص قرض یا بچے چھوڑ کر مرے گا اس کا قرض اور بچوں کی پرورش کا میں ذمہ دار ہوں کیونکہ میں مسلمانوں کا ولی ہوں۔ (سنن نسائی: ۱۹/۲۳، درجہ: صحیح)

یہ ایک حدیث ہی بدعت کے موضوع کی اہمیت واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی۔ بدعت سے بچنا اتنا اہم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر خطبے میں صحابہ کرام کو اس سے خبردار کرتے تھے اور اس سے بچنے کی تاکید فرماتے تھے۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج لوگوں کی ایک کثیر تعداد اس موضوع کی اہمیت سے ناواقف ہے۔ بدعت کے بارے میں حدیث کے الفاظ اپنی پوری آب و تاب کےساتھ آج بھی ہماری تمام مساجد کے خطبات میں موجود ہیں۔ لیکن لوگ یہ جانتے ہی نہیں کہ ان الفاظ کا مطلب کیا ہے؟ زیادہ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور اس ناواقفیت کی وجہ سے آج ہماری امت طرح طرح کی بدعات میں مبتلا ہے۔

آج ہم قرآن وسنت کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ بدعت کیا ہے؟ اور اس کی پہچان کیسے ہو گی؟ لفظ بدعت کا لغوی مطلب جدت اور اختراع ہے۔ بدعت کے مادے سے بنا لفظ ابتدا اردو زبان میں عام استعمال ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے فرمایا:

بَدِيعُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ‌ۖ
(وہی اللہ) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والاہے (البقرۃ: ۱۱۷)


شریعت کی اصطلاح میں بدعت سے مراد دين ميں ايجاد كردہ نيا طريقہ ہے جس پر عمل كرنے سے اجر و ثواب اور اللہ كا قرب حاصل كرنا مقصود ہو۔ بدعت دین کے نام پر کیا جانے والا کوئی ایسا عمل ہے جو نہ تو شريعت ميں وارد ہوا ہے، نہ كتاب و سنت ميں اس کی كوئى دليل پائى جاتی ہے اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام كے دور ميں یہ عمل کیا جاتا تھا۔بدعت کی تعريف سے يہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے ہے كہ دنياوى ايجادات (جیسے لاؤڈ سپیکر، موبائل فون، انٹرنیٹ، کمپیوٹر، ہوائی جہاز، کار وغیرہ) کو لغوی معنی میں تو بدعت کہا جا سکتا ہے، لیکن شرعی اصطلاح میں انہیں بدعت نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ان ایجادات کا دین سے تعلق نہیں اور شریعت میں بدعت کی اصطلاح صرف دینی معاملات کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ دینی معاملات میں بدعت مذموم ہے اور اس کے بارے میں وعید ہے، لیکن دنیاوی معاملات میں بدعت باعث خیر ہو سکتی ہے۔ اگر کسی دنیاوی ایجاد سے بنی آدم کو فائدہ ہو رہا ہو، اس کی کوئی تکلیف دور ہو رہی ہو، اس کی زندگی پہلے سے آسان ہو جائے یا اس سے اللہ کے دین کی تبلیغ و ترویج کا کام لیا جائے تو اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔

اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بدعت کی جو تعریف ہمیں بتائی گئی ہے اس کی کیا دلیل ہے؟ کیا اسے قرآن و سنت سے ثابت کیا جا سکتا ہے؟اس کا جواب ہے کہ ہاں۔ اس کی دلیل ہمیں سنت سے ملتی ہے۔ اس ضمن میں ایک حدیث ہم پہلے ہی دیکھ چکے ہیں۔ یاددہانی کے لئے میں اسے دوبارہ دہرا دیتا ہوں۔

سب سے سچی بات اللہ کی کتاب اور سب سے بہتر طریقہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور (دین میں) ہر نئی چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی۔ (سنن نسائی: ۱۹/۲۳، درجہ: صحیح)

اب اس موضوع پر چند اور صحیح احادیث بھی دیکھ لیتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے ہمارے اس معاملے (یعنی دین) میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ (چیز) رد ہے۔ (صحیح بخاری: ۵۳/۷، صحیح مسلم: ۳۰/۲۳، اربعین نووی: ۵، سنن ابن ماجہ : ۱/۱۴)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ (عمل) نامقبول ہے۔ (صحیح مسلم: ۳۰/۲۴)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اور تقوی کی وصیت کرتا ہوں اور سننے کی اور ماننے کی چاہے ایک حبشی غلام تمہارا امیر ہو۔ پس جو شخص تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا تو وہ عنقریب بہت زیادہ اختلافات دیکھے گا۔ پس تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو تھامے رکھو اور اسے سختی سے پکڑے رہو (حدیث میں دانتوں سے پکڑے رکھنے کا محاورہ استعمال ہوا ہے)۔ اور دین میں نئے امور نکالنے سے بچتے رہو کیونکہ ہرنئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (سنن ابی داوٰد: ۴۲/۱۲، اربعین نووی: ۲۸)

صحابہ کرام بدعت کے معاملے میں بہت حساس تھے کیونکہ اس کی متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہت تاکید کی تھی۔ مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں (عبد اللہ) ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ (ایک مسجد میں) تھا۔ ایک شخص نے تثویب کہی (الصلوٰۃ خیر من النوم)، راوی کو شک ہے کہ ظہر میں کی یا عصر میں، حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہاں سے چل نکلو کیونکہ یہ بدعت ہے۔ (سنن ابی داؤد: ۲/۱۴۸، درجہ: حسن)

شرعی اصطلاح میں بدعت کی تعریف کو ذہن میں بٹھا لیں۔ یہ تعریف آپ پر واضح ہو جائے تو بدعت کے بارے میں بہت سے مغالطے تو اسی سے دور ہو جاتے ہیں۔ بدعت دين ميں ايجاد كردہ نيا طريقہ ہے جس پر عمل كرنے سے اجر و ثواب اور اللہ تعالٰی كا قرب حاصل كرنا مقصود ہو۔ مثلا کچھ گروہ اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے اور قرب حاصل کرنے کے لئے ذکر و اذکار کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن وہ مسنون اذکار کرنے کے بجائے نت نئے ذکر ایجاد کرتے رہتے ہیں، خود ہی یہ ذکر دہرانے کی تعداد مقرر کرتے ہیں، اس کے خود ساختہ فضائل بیان کرتے ہیں اور لوگوں کو قرآن کریم اور مسنون اذکار سے ذکر کرنے کی جگہ اپنے ایجاد کردہ اذکار سے اللہ تعالٰی کی عبادت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ جیسے کہ ہمارے ہاں صرف اللہ تعالٰی کا نام (اللہ! اللہ! اللہ!) یا ان کے لئے ضمیر (ھو! ھو! ھو!) دہرا کر ذکر کیا جاتا ہے اور اسے اللہ تعالٰی کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اب ذرا اپنے ذہن میں بدعت کا فارمولا دہرا لیں۔ اس ذکر سے لوگوں کا مقصود اجر و ثواب اور اللہ تعالٰی کا قرب ہے۔ لیکن نہ تو یہ شریعت میں وارد ہوا ہے، نہ کتاب و سنت میں اس کی کوئی دلیل پائی جاتی ہے اور نہ ہی یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالٰی اجمعین کے دور میں کیا جاتا تھا۔ اس ذکر نے بدعت کی تعریف کی تمام شرائط پوری کر دیں، لہذا واضح ہو گیا کہ یہ بدعت ہے اورہمیں اس سے دور رہنا چاہیئے۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ذکر اذکار نفلی عبادت ہے لہذا ہمیں کسی بھی طرح اور کسی بھی چیز سے ذکر کرنے کی آزادی ہے۔ لیکن یہ بات ٹھیک نہیں۔ تمام عبادات توقیفی ہیں۔ یعنی ہمیں تمام عبادات بشمول نفلی عبادات اسی طرح کرنی ہیں جیسے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کیا کرتے تھے۔ نفلی نماز بھی اسی طرح پڑھنی ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی اور اس کی تعلیم دی۔ ہم خود سے نفلی نماز پڑھنے کا کوئی طریقہ نہیں ایجاد کر سکتے کہ ایک رکوع کی جگہ دو کر لیں، یا سجدے دو سے تین کر لیں، نماز کا کوئی رکن آگے پیچھے کر دیں یا خود سے کوئی رکن ایجاد کر کے نماز میں شامل کر دیں۔ نہیں! ہمیں اس کی اجازت نہیں۔ ہاں ہمیں یہ آزادی ضرور ہے کہ کچھ مخصوص اوقات کے علاوہ ہم نفلی نماز کسی بھی وقت پڑھ سکتے ہیں اور اس کی کوئی تعداد مقرر نہیں۔ لیکن یہ اجازت بھی ہمیں قرآن و سنت سے ہی حاصل ہوئی ہے، ہم نے اس آزادی کو خود سے ایجاد نہیں کیا اور نہ ہی ایسی کوئی جسارت کرنے کا ہمیں حق ہے۔ 

اس طرح ذکر ایجاد کر لینا اور ان کی خود سے تعداد مقرر کر لینا صحابہ کرام کے زمانے میں بھی ایک جماعت نے بھی کیا تھا۔ عمر بن یحیٰی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا اور وہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ہم عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دروازے پر صبح کی نماز سے پہلے بیٹھتے تھے، جب آپ باہر آتے تو ہم آپ کے ساتھ مسجد کی طرف جاتے۔ ہمارے پاس ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ آئے اور انہوں نے کہا ابو عبدالرحمٰن ابھی باہر نہیں آئے؟ ہم نے کہا نہیں۔ پھر وہ بھی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے، حتٰی کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ باہر آئے۔ جب وہ باہر آئے تو ہم سب ان کی طرف کھڑے ہوئے، ان سے ابو موسیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا: اے عبدالرحمٰن! میں نے مسجد میں ابھی ایک کام دیکھا ہے، وہ مجھے برا معلوم ہوا ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ میں نے بہتر ہی دیکھا ہے۔ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا وہ کیا ہے؟ ابو موسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا اگر آپ زندہ رہے تو اسے دیکھ لیں گے۔ میں نے ایک جماعت کو حلقوں کی شکل میں مسجد میں بیٹھے دیکھا ہے۔ وہ نماز کا انتظار کر رہے تھے۔ ہر حلقہ میں ایک آدمی ہے اور ان کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں۔وہ کہتا ہے سو بار اللہ اکبر پڑھو تو وہ سو بار اللہ اکبر پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے سو بار لا الٰہ الا اللہ پڑھو تو وہ سو بار لا الٰہ الا اللہ پڑھتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے سو بار سبحان اللہ پڑھو تو وہ سو بار سبحان اللہ پڑھتے ہیں۔ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے پوچھا کہ پھر تم نے ان سے کیا کہا؟ ابو موسٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا میں نے آپ کی رائے کا انتظار کرتے ہوئے اور آپ کے کام کا انتظار کرتے ہوئے ان سے کچھ نہیں کہا۔ انہوں نے کہا کیا تم نے انہیں حکم نہیں دیا تھا کہ وہ اپنی برائیوں کو شمار کریں؟ اور ان کو ضمانت دینا تھی اس طرح سے نہ گننے سے ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ پھر وہ چلے اور ہم بھی آپ کے ساتھ چلے۔ حتٰی کہ آپ ان حلقوں میں سے ایک کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا یہ کیا ہے، جو میں تمہیں کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟ انہوں نے کہا اے ابو عبداللہ! ہم ان کنکریوں کے ساتھ اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ اور سبحان اللہ کو شمار کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا اپنی برائیوں کو شمار کرو۔ میں ضامن ہوں کہ نہ گننے سے تمہاری نیکیوں میں سے کوئی چیز ضائع نہیں ہو گی۔ اے محمد کی امت! تم پر افسوس ہے کہ تم کتنی جلدی ہلاک ہو رہے ہو۔ یہ تمہارے نبی کے صحابہ کثرت سے موجود ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے ابھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور ان کے برتن ابھی ٹوٹے۔ مجھے اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یا تو تم ایسے (بدعت والے) طریقے پر ہو جس پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے زیادہ ہدایت ہے یا تم نے گمراہی کا دروازہ کھولا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا اے عبدالرحمٰن! اللہ کی قسم! ہم نے تو صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا بہت سے لوگ نیکی کا ارادہ کرتے ہیں مگر انہیں نیکی حاصل نہیں ہوتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا ایک قوم قرآن پڑھے گی جو ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ اور اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا شاید کہ ان کے اکثر تم میں سے ہی ہوں۔ پھر آپ ان کے پاس سےواپس آئے۔ عمرو بن سلمۃ کہتے ہیں ہم نے ان حلقوں کے تمام لوگوں کو دیکھا۔ جو نہروان کے دن خارجیوں کے ساتھ مل کر ہمارے خلاف جنگ کر رہے تھے۔ (سنن دارمی: ۲۱۰، درجہ: صحیح بمطابق شیخ البانی رحمہ اللہ)

بدعت کی تعریف بطور شرعی اصطلاح جب ہم پر واضح ہو گئی تو اب ہمارے لئے آسان ہو گیا ہے کہ ہم بدعت اور سنت کے درمیان فرق پہچان سکیں اور بدعات سے خود کو بچانے کی کوشش کا آغاز کر سکیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کچھ بدعات اتنے وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہیں کہ اب ان سے بچنا کافی مشکل ہو چکا ہے۔ لوگوں کو ان بدعات سے اتنا لگاؤ ہو گیا ہے کہ انہیں محض یہ بتا دینا انہیں مشتعل کر دینے کے لئے کافی ہے کہ ہم یہ کام نہیں کرتے اور ہم اسے اسلام کا حصہ نہیں سمجھتے۔ عین ممکن ہے کہ اگر آپ ان بدعات سے خود کو اور اپنے گھر والوں کو بچانے کی کوشش کریں تو آپ کو اپنے ہی رشتہ داروں اور دوست احباب کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے اور آپ پر طنز و طعنے کے نشتر چلائے جائیں۔ آپ کو ان سے الجھنے اور خود مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ صبر سے کام لیں، انہیں حکمت، دلیل، اچھے اخلاق اور احسن طریقے سے سمجھانے کی کوشش کریں۔ہو سکتا ہے کہ اگر آپ بدعت کے مفہوم سے واقف نہ ہوتے تو آپ خود بھی بدعات میں ملوث رہتے اور شاید اس وقت آپ کا ردعمل بھی ویسا ہی ہوتا جیسا ابھی آپ کے دوستوں اور رشتہ داروں کا ہے۔ لوگوں کی مخالفت اور بدعات پر کثرت عمل سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ بدعت بدعت ہی رہتی ہے چاہے کتنے ہی لوگ اس پر عمل کرتے ہوں۔ دین کا کوئی عمل اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ عوام کی کتنی بڑی تعداد اس پر عمل پیرا ہے، نہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی بات کتنی مشہور اور مقبول ہے۔ دین ثابت ہوتا ہے قرآن و سنت سے! دین ثابت ہوتا ہے دلیل سے! اور دین ثابت ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے قول و عمل سے!

کچھ لوگ مسلمانوں کوبدعت کے موضوع پر الجھانے کی اور اس میں شک پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی بدعات کے دفاع میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دین میں کوئی اچھی چیز ایجاد کرنے کا بہت ثواب ہے۔ اس کے لئے وہ بدعت حسنہ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ اس حدیث کو غلط طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ اس حدیث کا مطلب وہ نہیں ہے جو یہ لوگ نکالنا چاہتے ہیں۔ آئیں یہ حدیث دیکھتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ اس کا اصل مطلب کیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اچھا طریقہ جاری کیا اور اس میں اس کی اتباع کی گئی تو اس کے لئے بھی اس کے متبعین کے برابر ثواب ہوگا اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ جبکہ اگر کسی نے برائی کے کسی طریقے کو رواج دیا اور لوگوں نے اس کی اتباع کی تو اس کے لئے بھی اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا اس کی اتباع کرنے والوں کے لئے اور ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ (جامع ترمذی: ۴۱/۳۱، درجہ: صحیح)

اس حدیث کو استعمال کرتے ہوئے وہ لوگ اپنی بدعات کا دفاع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تو ایک اچھا طریقہ جاری کیا ہے یا ہم کسی اور کے جاری کئے ہوئے اچھے طریقے پر عمل پیرا ہیں، یہ وہ بدعت نہیں جس کی مذمت کی گئی ہے بلکہ یہ اچھی بدعت (بدعت حسنہ ) ہے۔ لیکن یہ لوگ جس حدیث کا حوالہ دیتے ہیں وہ حدیث مکمل نہیں ہے۔ اس حدیث کے پیچھے ایک مکمل واقعہ ہے۔ یہ پوراواقعہ صحیح مسلم میں بیان کیا گیا ہے۔

حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم دن کے شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے تو ایک قوم ننگے پاؤں ننگے بدن چمڑے کی عبائیں پہنے تلوراوں کو لٹکائے ہوئے حاضر ہوئی۔ ان میں سے اکثر بلکہ سارے کے سارے قبیلہ مضر سے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس ان کے فاقہ کو دیکھ کر متغیر ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر تشریف لے گئے۔ پھر واپس تشریف لائے تو حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اذان اور اقامت کہی۔ پھر آپ نے خطبہ دیا اور فرمایا اے لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا ایک جان سے، اس آیت کی تلاوت کی (يٰاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَا ءً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاءَلُوْنَ بِه وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا (النسآء : ۱)) اور سورۃ الحشر کی آیت (يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ(الحشر : ۱۸)) کی تلاوت کی اور فرمایا کہ آدمی اپنے دینار اور درہم اور اپنے کپڑے اور گندم کے صاع سے اور کھجور کے صاع سے صدقہ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا اگرچہ کھجورکا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔ پھر انصار میں سے ایک آدمی اتنی بھاری تھیلی لے کر آیا کہ اس کا ہاتھ اٹھا نے سے عاجز ہو رہا تھا۔ پھر لوگوں نے اس کی پیروی کی یہاں تک کی میں نے دو ڈھیر کپڑوں اور کھانے کے دیکھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس کندن کی طرح چمکتا ہوا نظر آنے لگا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے اسلام میں کسی اچھے طریقہ کی ابتداء کی تو اس کے لئے اس کا اجر اور اس کے بعد عمل کرنے والوں کا ثواب ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے ثواب میں کمی کی جائے اور جس اسلام میں کسی برے عمل کی ابتداء کی تو اس کے لئے اس کا گناہ ہے اور ان کا کچھ گناہ جنہوں نے اس کے بعد عمل کیا بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کچھ کمی کی جائے۔ (صحیح مسلم: ۱۲/۸۸)

یہ واقعہ پورا پڑھ لینے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس بدعت حسنہ کو یہ لوگ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں، اس حدیث میں تو ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ اس حدیث میں صحابہ کرام نے کسی بدعت کا آغاز نہیں کیا۔ صحابہ تو غرباء اور مستحقین کے لئے صدقہ و خیرات کر رہے تھے۔ اور صدقہ و خیرات کرنا قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ تو یہاں بدعت کا سوال کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ اور اس حدیث کو بدعت حسنہ کے لئے بطور مثال کیسے پیش کیا جا سکتا ہے؟ درحقیقت اسلام میں بدعت حسنہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات واضح ہے کہ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اتنی واضح ہدایت اور تاکید کے بعد دین میں بدعت حسنہ نکالنے کی گنجائش کہاں باقی رہ جاتی ہے؟

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہر بدعت گمراہی ہے چاہے بیشک لوگ اسے اچھا سمجھیں۔ (شرح اصول اعتقاد اھل السنہ والجماعۃ از امام للکائی)

صحیح مسلم کی حدیث پڑھ لینے کے بعد اب ہم بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ جامع ترمذی کی حدیث کا سیاق و سباق کیا ہے اور اس میں اچھا طریقہ جاری کرنے سے کیا مراد ہے۔ اس کا درست مطلب قرآن و سنت سے ثابت شدہ احکامات اور نیک اعمال میں پہل کرنا ہے، دوسروں کو اس کی تعلیم دینی ہے اور دوسروں کے لئے اس کا عملی نمونہ پیش کرنا ہے۔

لوگ بدعات کے دفاع کے لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا تراویح کو باجماعت ادا کرنے کو بھی بطور مثال پیش کرتے ہیں، لیکن یہ مثال بھی ٹھیک نہیں۔ باجماعت تراویح پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے (صحیح بخاری: ۳۱/۵، صحیح مسلم: ٦/۲۱۱، سنن ابی داؤد: ٦/۳)۔ تراویح نفلی عبادت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مداومت نہیں فرمائی۔ لہذا اگر کوئی شخص نماز تراویح ادا نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ لیکن اس طرح وہ رمضان المبارک میں قیام الیل کے فضائل سے محروم رہ جائے گا۔ چونکہ تراویح نفلی عبادت ہے لہذا اس پر وقت کی اور رکعتوں کی تعداد کی بھی قید نہیں۔ یہ رات کے کسی بھی حصے میں ادا کی جا سکتی ہے اور دو دو کر کے جتنی رکعات پڑھنے کا دل چاہے پڑھی جا سکتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے جب باجماعت نماز تراویح کے لئے یہ کہا تھا کہ ہم نے کتنی اچھی چیز شروع کی ہے، تو وہاں اچھی چیز شروع کرنے سے مراد وہی تھا جو ہم ترمذی کی حدیث میں دیکھ چکے ہیں۔ یہاں بھی کسی بدعت کا آغاز نہیں کیا گیا تھا بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کیا گیا تھا۔

بدعات پر عمل کرنے والے اکثر اپنی بدعت کو جواز دینے کے لئے قرآن و سنت سے دلیل پیش نہیں کرتے (کیونکہ ان کے پاس کوئی واضح دلیل ہوتی ہی نہیں)۔ زیادہ تر یہ لوگ اپنی بدعات کے جواز، دفاع اور فروغ کے لئے جذباتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔ اپنی بدعت کو اللہ تعالٰی کے قرب کا ذریعہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا ثبوت باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض لوگ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ یہ بدعت ایمان کا حصہ ہے اور شیطان کے علاوہ سب ہی اس بدعت پر عمل کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کی اس بات کی زد کس کس پر پڑتی ہے۔ ان کی بدعات پر نہ کبھی صحابہ کرام نے عمل کیا تھا، نہ تابعین نے، نہ تبع تابعین نے، نہ فقہائے کرام نے، نہ محدثین نے اور نہ ائمہ کرام نے۔ کیا یہ لوگ یہ بتانا پسند کریں گے کہ ہمارے ان تمام سلف صالحین میں سے کون کون ان کے نزدیک شیطان ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کا قرب اگر کسی کو حاصل ہے تو ان سلف صالحین کو سب سے زیادہ حاصل تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کسی کو محبت ہے تو انہیں سب سے زیادہ محبت تھی۔ اگر ان بدعات میں کوئی نیکی ہوتی تو وہ سب سے آگے بڑھ کر اس پر عمل کرتے۔ لیکن انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ایک بار بھی ایسا نہیں کیا، پھر ہم ایسا کیوں کریں؟ ہم دین کے نام پر کیوں ان اعمال میں پڑیں جن کا قرآن وسنت میں کہیں ذکر ہی نہیں اور وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی وفات کے صدیوں بعد ایجاد کئے گئے تھے؟ اگر ہمیں واقعی اللہ تعالٰی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے تو اس کو ثابت کرنے کا طریقہ بلند و بانگ دعوے کرنا اور چند مخصوص دن منا لینا نہیں ہے۔ اگر ہمیں واقعی ان سے محبت ہے تو ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں ان کی اطاعت کرنا ہو گی۔ اور سال میں صرف دو چار دن نہیں بلکہ پورا سال کرنا ہو گی۔

(اے پیغمبر)آپ فرمادیجئیے کہ اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے اور تمھارے سب گناہوں کو معاف کردیں گے اور الله تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑے عنایت فرمانے والے ہیں۔ (آل عمران: ۳۱)

اب ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکیے، اپنے دل کو خود ٹٹولیے اور خود فیصلہ کیجیے۔ کیا ہم واقعی اللہ تعالٰی اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں؟ کیا ہم واقعی ان کی مکمل اطاعت اور اتباع کرتے ہیں؟

أَقُولُ قَوْلِي هَذَا، وَأَسْتَغْفِرُ اللّهَ لِيَ وَلَكُمْ ولِسَائِرِ الْمُسْلِمِيِنَ وَالْمُسْلِمَاتْ ، فَاسْتَغْفِرُوهُ، إِنَهُ هُوَ الْغَفُورُ الرّحِيمُ۔

خطبہ ثانیہ:

قال الله تعالی فی کتابه الکریم اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰٓٮِٕكَتَهٗ يُصَلُّوۡنَ عَلَى النَّبِىِّ ؕ يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَيۡهِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا‏، اللھم صل علٰی محمد و علٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔اللھم بارک علٰی محمد و علٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم و علٰی آل ابراھیم انک حمید مجید

خطبہ ثانیہ میں میں اب تک ہو چکی بحث کا خلاصہ پیش کروں گا اور بدعت کو جائز سمجھنے کے مضمرات پر بات کروں گا۔ اب تک ہم پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ بلاشبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین میں بدعات کے متعلق واضح تاکید فرمائی ہے اور ان کے جواز کے لئے کوئی گنجائش نہیں رکھی۔ نہ ہی کسی صحیح حدیث سے ہمیں بدعت حسنہ کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ اس پوری گفتگو کا خلاصہ مندرجہ بالا نکات ہیں:

۱- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبات مبارک میں متواتر اس بات کو دہرایا ہے کہ دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے، ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی۔ اگر ہر بدعت گمراہی ہے تو پھر دین میں بدعت حسنہ کی گنجائش کیسے نکالی جا سکتی ہے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح حدیث اور بار بار کی گئی تاکید کی صریح خلاف ورزی ہے۔

۲۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ہمارے اس معاملے (یعنی دین) میں از خود کوئی ایسی چیز نکالی جو اس میں نہیں تھی تو وہ رد ہے۔ جب ہر بدعت رد کر دی جائے گی تو پھر لوگ یہ کیسے سمجھ سکتے ہیں کہ ان کی بدعت قبول کی جائے اور وہ ان کے لئے باعث ِ ثواب ہو گی؟

۳۔ جب کوئی شخص دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرتا ہے اور اسے دین کا حصہ بنا کر پھیلانے کی کوشش کرتا ہے تو درحقیقت اس سے کئی برے مطلب نکلتے ہیں، جن میں سے ہر ایک پچھلے سے بدتر ہے۔ مثلا:
  • (الف) یہ کہ دین نامکمل ہے (نعوذ باللہ)۔ اللہ تعالٰی نے نہ دین کو کامل کیا اور نہ اسے تمام کر دیا۔ بلکہ اس میں اب بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ یہ بات واضح طور پر قرآن کریم کی آیت کے خلاف ہے۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا: آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا (المائدہ: ۳)
  • (ب) یہ کہ ہمارا دین کامل نہ تھا (نعوذ باللہ) اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر بدعت ایجاد کرنے والے تک کامل نہ ہوا۔ یہاں تک کہ اس شخص نے خود اپنا فہم استعمال کرتے ہوئے وہ بدعت ایجاد کر دی اور ااپنے بل بوتے پر دین کو کامل بنا دیا۔
  • (ج) یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام اور سلف صالحین اس بدعت حسنہ کا اجر لینے سے محروم رہ گئے۔ لیکن ایک شخص آیا، اس نے وہ بدعت ایجاد کی اور اب لوگ دھڑا دھڑ اس سے ثواب کمائے جا رہے ہیں۔ اللہ کے بندوں اتنا تو سوچ لیتے کہ اگر اس عمل میں کوئی اچھائی ہوتی تو اللہ تعالٰی اس سے اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کو کیوں محروم رکھتے؟

(۴ ) بدعات سے دین میں تحریف کے دروازے کھلتے ہیں اور لوگوں کو اپنی خواہشات اور اھواء کے مطابق دین کو ڈھال لینے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہر بدعتی اپنی بدعت کو حسنہ ہی کہتا ہے اور وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ بہت نیکی کا کام کر رہا ہے۔ اگر سب لوگوں کو اپنی اپنی مرضی کی بدعات ایجاد کرنے کی آزادی مل جائے تو پھر دین کا کیا شکل باقی رہ جائے گی؟

(۵) بدعات کی پیروی کرنے سے سنت کی پیروی میں کمی ہونے لگتی ہے۔ درحقیقت سنت اور بدعت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جب کوئی بدعت ایجاد ہوتی ہے تو وہ دراصل ایک سنت کی جگہ لے رہی ہوتی ہے۔ اور کسی بدعت کو ختم کرنے کا طریقہ بھی یہی ہے کہ اس کی جگہ اس بھولی ہوئی فراموش کی ہوئی سنت کو پھر سے زندہ کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ دین میں کوئی بدعت ایجاد نہیں کرتے لیکن یہ کہ وہ اس جیسی کسی سنت کو مٹا دیتی ہے (مسند احمد: ۱٦۵۲۲)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالٰی بدعتی سے توبہ کو چھپا رکھتے ہیں جب تک وہ اپنی بدعت سے باز نہ آ جائے۔ (ابن ابی عاصم: ۳۷، درجہ: صحیح بمطابق شیخ البانی رحمہ اللہ)

اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ (حدیث) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بدعتی اپنی بدعت سے توبہ نہیں کرتا کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو ہدایت پر سمجھ رہا ہوتا ہے۔ (مجموع الفتاوٰی: ۱۱/٦۸۵)

جو شخص گناہگار ہو، فاسق ہو، معصیت میں ڈوبا ہوا ہو اسے کم ازکم اس بات کا احساس تو ہوتا ہے کہ وہ جن کاموں میں ملوث ہے وہ غلط ہیں اور اسلام کی تعلیمات کے منافی ہیں۔ اسے ان کاموں پر اس کا ضمیر ملامت کرتا رہتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ایک وقت آئے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہے اور ان تمام گناہوں سے باز آ کر سچے دل سے توبہ کر لے۔ لیکن ایک بدعتی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنی بدعت پر خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔ اسے کوئی احساسِ جرم اور احساسِ گناہ نہیں ہوتا۔ جب یہ احساس نہ ہو بلکہ بدعت کو نیکی سمجھا جا رہا ہو تو اس سے توبہ کیونکر ہو سکتی ہے؟

سفیان ثوری رحمہ اللہ نے فرمایا: بدعت شیطان کو گناہوں سے زیادہ محبوب ہے۔کیونکہ گناہوں سے توبہ کر لی جاتی ہے لیکن بدعات سے توبہ نہیں کی جاتی۔ (مجموع الفتاوٰی: ۱۱/۴۷۲)

امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو کوئی دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرتا ہے اور اسے اچھا سمجھتا ہے تو درحقیقت وہ دعوٰی کرتا ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رسالت کے فرائض ادا نہیں کئے (نعوذ باللہ) اور دھوکہ دیا۔ (معجم الکبیر از طبرانی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھ سے پہلے جس امت میں نبی بھیجا گیا ہے اس کی امت میں سے اس کے کچھ دوست اور صحابی بھی ہوتے تھے جو اس کی سنت پر کار بند اور اس کے حکم کے پیرو رہتے تھے۔ لیکن ان صحابیوں کے بعد کچھ لوگ ایسے آ جاتے تھے جو کہتے وہ تھے جو کرتے نہیں تھے، اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم ہی نہیں ہوا تھا۔ جس شخص نے ہاتھ سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا، جس نے زبان سے ان مخالفین کا مقابلہ کیا وہ بھی مومن تھا ، جس نے زبان سے جہاد کیا وہ بھی مومن تھا اور اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانہ کے برابر بھی نہیں۔ (صحیح مسلم: ۱/۸٦)

ہم اللہ تعالٰی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں نفسانی خواہشات اور اھواء کی گمراہیوں سے محفوظ رکھیں، ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہمیں تمام بدعات سے بچا لیں، چاہے ان بدعات میں تھوڑے لوگ ملوث ہوں یا زیادہ، وہ بدعات محرم الحرام میں کی جائیں، ربیع الاول میں، رجب میں، شعبان میں، رمضان المبارک میں یا سال کے کسی بھی اور مہینے میں۔ ہم اللہ تعالٰی سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں یہ ہمت، طاقت، علم اور توفیق دیں کہ ہم قرآن کریم پر، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور سنت خلفائے راشدین پر چلتے رہیں اور اسی کے ساتھ سختی سے چمٹے رہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں ہر گمراہی اور ہر فتنے سے محفوظ رکھیں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت کی دولت سے نوازیں اور ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دیں۔ وہ راستہ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین چلتے رہے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، سب سے بہتر میرا زمانہ ہے (صحابہ کرام)، اس کے بعد ان لوگوں کا جو اس کے بعد ہوں گے(تابعین) پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے (تبع تابعین)اور اس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قسم سے پہلے گواہی دیں گے کبھی گواہی سے پہلے قسم کھائیں گے۔ (صحیح بخاری: ۸۱/۱۸، صحیح مسلم: ۴۴/۲۹۸)

بلاشبہ صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کی نسلیں مسلمانوں کی تین بہترین نسلیں تھیں۔ انہوں نے اسلام کو پاکیزہ ترین اور ملاوٹ سے مکمل پاک ذرائع سے حاصل کیا اور یہ لوگ اسلام کو باقی آنے والے تمام لوگوں سے زیادہ بہتر جاننے والے اور اس پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے تھے۔ انہوں نے خالص ترین اسلام کی پیروی کی تھی۔ وہ خالص اسلام جو اسی حالت میں تھا جس حالت میں اللہ تعالٰی نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا تھا۔ کسی بدعت کی ملاوٹ اور کسی سنت کے نظر انداز کئے جانے سے پاک اسلام۔ اگر ہم اچھے مسلمان بننا چاہتے ہیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم بھی اسے اسلام کی پیروی کریں جس کی پیروی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے کی تھی۔ اور ہمیں چاہئے کہ ہم بعد میں آنے والے لوگوں کی ایجاد کردہ تمام بدعات کو رد کردیں۔


اَللّٰھُمَّ اَیِّدِ الْاِسْلاَمَ وَ الْمُسْلِمِیْن، اَللّٰھُمَّ انْصُرْ مَنْ نَصَرَ دِیْنَ مُحَمَّدِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاجْعَلْنَا مِنْھُمْ، وَاخْذُلْ مَنْ خَذَلَ دِیْنَ مُحَمَّدِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلَا تَجْعَلْنَا مِنْھُمْ، اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَهُ، وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَهُ، اَللّٰھُمَّ ثَبِّتْنَا عَلَی الْاِسْلاَمِ، اَللّٰھُمَّ نَوِّرْ قُلُوْبَنِا بِنُوْرِ الْاِیْمَانِ، اَللّٰھُمَّ اَغْفِرْ لِلْمُوْمِنِیْنَ وَالْمُوْمِنَاتِ، اَلْاَحْیَاءَ مِنْھُمْ وَالْاَمْوَاتِ۔


عِبَادَ اللہ ِ، رَحِمَکُمُ اللہ ُ،إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ، اذکرواللہ یذکرکم، وَادْعُوْہُ یَسْتَجِبْ لَکُمْ، وَلَذِکْرِ اللہِ اَکْبَرُ، وَاللہ ُیَعْلَمُ مَا تَسْمَعُونْ۔