اللہ کی زمین سے ملی ہے

یہ کہانی ہے اس حفاظت کی، اس امانت کی جو آپ کو جاپان میں میسر آتی ہے۔ اور یہ کہانی ہے میری غائب دماغی کی۔

یہ کہانی ہے پچھلے جمعۃ المبارک کی۔میں جاپان کے شہر سندائی میں ٹوہوکُو یونیورسٹی میں پی-ایچ-ڈی کا طالب علم ہوں۔ مجھے پچھلے جمعے ٹوہوکُو یونیورسٹی کے کاوااُوچی کیمپس میں جمعہ کی نماز پڑھانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ جمعے کے خطبہ اور نماز کے تمام مراحل الحمدللہ کسی قابلِ ذکر واقعے کے بغیر خوش اسلوبی سے طے ہو گئے۔ نماز کے بعد میں نے کاوااُوچی سے اپنے کیمپس آؤبایاما اپنے الجزائری دوست حمزہ کے ساتھ واپس آنا تھا۔

جب ہم حمزہ کی گاڑی میں بیٹھنے کے لئے پارکنگ کی طرف جا رہے تھے تو حمزہ نے مجھ سے پوچھا کہ فہد تم اپنا خطبہ کہاں سے دیکھ کر پڑھ رہے تھے؟ میں نے اسے بتایا کہ یہ میری ٹیبلٹ ہے اس سے دیکھ کر پڑھ رہا تھا۔ اب اس نے میری ٹیبلٹ میرے ہاتھ سے لے لی اور اسے الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ اس کی کمپنی اور ماڈل بتاؤ؟ میں نے اسے بتایا کہ یہ امیزون کِنڈل ہے۔ کِنڈل دراصل برقی کتب (ای بُکس) پڑھنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ لیکن اس کی فائر سیریز اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم پر بنائی گئی ہے اور یہ کسی بھی دوسری اینڈرائیڈ ٹیبلٹ کی طرح کام کرتی ہے۔ اس میں پلے سٹور بھی ہے جہاں سے اینڈرائیڈ ایپس انسٹال کی جا سکتی ہیں۔ کِنڈل دیگر ٹیبلیٹس کی نسبت کم قیمت ہے لیکن اس کی کارگردگی کافی اچھی ہے (اب مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ یہ مضمون تو کِنڈل کا اشتہار بنتا جا رہا ہے۔ مسکراہٹ)۔ دو سال پہلے میں نے یہ ٹیبلٹ اپنے والد اور ہمشیرہ کو پاکستان بھی بھیجی تھی۔ انہوں نے اسے وڈیوز دیکھنے کے لئے اور بچوں نے اسے گیمز کھیلنے کے لئے استعمال کیا جس کی وجہ سے اب ان کی بیٹری کافی کمزور ہو چکی ہے۔ لیکن میں نے چونکہ اسے صرف کتابیں پڑھنے کے لئے استعمال کیا اس لئے میری ٹیبلٹ کی بیٹری ابھی تک سلامت ہے اور مجھے اس سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ حمزہ میری مارکیٹنگ کی صلاحیتوں سے کافی متاثر ہوا اور کہنے لگا ہاں یہ بہت مفید چیز ہے اور کتابیں پڑھنے کے لئے تو بہت ہی مناسب ہے۔ 

میرا معمول ہے کہ رات سونے سے پہلے کچھ دیر کسی کتاب کا مطالعہ کرتا ہوں۔ اس رات میں نے بستر میں لیٹ کر کتاب پڑھنے کا ارادہ کیا تو کِنڈل ندارد۔ میں نے سوچا چلو جی چھٹی ہوئی۔ آج ہی حمزہ اس کی اتنی تعریف کر رہا تھا اور آج ہی یہ غائب ہو گئی۔ لگ گئی نا نظر۔ میں نے پورا اپارٹمنٹ کھنگال ڈالا۔ اگلے دن اپنی لیب میں بھی جا کر ڈھونڈا۔ جس کیفے میں لنچ کیا تھا ان سے بھی جا کر پوچھا۔ حمزہ سے بھی کہا کہ یار تم اپنی گاڑی چیک کرو کہیں اُدھر نہ رہ گئی ہو۔ کاوااُوچی کے گمشدہ و بازیافت (لوسٹ اینڈ فاؤنڈ) سیکشن میں بھی جا کر ڈھونڈا۔ لیکن ٹیبلٹ کو نہ ملنا تھا نہ ملی۔ 

مجھے بظاہر محسوس ہو رہا تھا کہ حمزہ اس صورتحال کو بہت انجوائے کر رہا ہے۔ وہ بولا یار فہد ٹیبلٹ کوئی اتنی چھوٹی چیز تو نہیں کہ اتنی آسانی سے گم جائے (لیکن میں تو اسے بہت ہی آسانی سے گُم کر چکا تھا)۔ تم کوشش جاری رکھو۔ کاوااُوچی کے علاوہ آؤبایاما میں بھی اس کی رپورٹ درج کراؤ تاکہ اگر کسی کو ملے اور وہ لوسٹ اینڈ فاؤنڈ سیکشن میں جمع کرائے تو اُدھر کے لوگ فورا تم سے رابطہ کر لیں۔ میں نے اس کے مفید مشوروں پر اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنی کوششیں جاری رکھیں۔ 

میں بار بار اپنی یادداشت پر زور ڈال کر پچھلے جمعے کے تمام واقعات کا تسلسل ذہن میں دہرانے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ مرحلہ یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا جس مرحلے کے بعد میری کِنڈل میرے پاس نہ رہی تھی۔ مجھے اتنا یاد تھا کہ حمزہ کی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے ٹیبلٹ میرے پاس تھی۔ لیکن حمزہ کی گاڑی سے اترنے کے بعد اوراس دن لیب میں کام کرنے کے دوران ٹیبلٹ کی موجودگی کے بارے میں میری یادداشت کوئی خبر دینے سے قاصر تھی۔ مجھے خود پرغصہ بھی آ رہا تھا کہ فہد تم پی-ایچ-ڈی کر رہے ہو اور ذرا اپنی دماغی حالت دیکھو۔ پھر یہ سوچ کر ہنسی آئی کہ ہمارے ہاں پی-ایچ-ڈی پروفیسروں کی غائب دماغی کے قصے پہلے ہی بہت مشہور ہیں۔ آئن سٹائین تک سے یہ واقعہ منسوب ہے کہ ایک بار موصوف اپنا نام تک بھول گئے تھے۔ 

پھر ہوا کچھ یوں کہ جمعرات کے دن اپنی لیب کے فلور کی راہداری سے گزرتے ہوئے میری نظر میٹنگ ایریا کی طرف پڑی تو دیکھا کہ ایک میز پرمیری کِنڈل صاحبہ مزے سے براجمان ہیں۔ غالبا پچھلے جمعے کوئی فون سننے کے لئے یا باتھ روم جانے کے لئے میں لیب سے نکلا ہوں گا، ٹیبلٹ میز پر رکھی ہو گی اور بعد میں ٹیبلٹ بھول کر واپس لیب چلا گیا ہوں گا۔ چھ دن سے میری ٹیبلٹ میری راہ تک رہی تھی، چھ دن سے میں اِدھر اُدھر اسے ڈھونڈ رہا تھا، دوسرے کیمپس جا کر وہاں لوگوں سے پوچھ رہا تھا۔ لیکن مجھے یہ احساس نہ ہواکہ ٹیبلٹ میری لیب سے چند میٹر کے فاصلے پر میٹنگ ایریا میں موجود تھی۔ 

میں ٹیبلٹ مل جانے پر اللہ تعالٰی کا شکر بجا لایا۔ پھر مجھے یہ احساس ہونا شروع ہوا کہ جاپان کتنا محفوظ ملک ہے اور یہاں کے لوگوں میں امانت کس درجے کی ہے۔ میری ٹیبلٹ چھ دن تک ایک پبلک جگہ پڑی رہی۔ اس دوران اس جگہ کو بلامبالغہ سینکڑوں لوگوں نے استعمال کیا ہوگا لیکن ا نہوں نے میری ٹیبلٹ کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ کسی ایک شخص کی بھی نیت میں فتور نہ آیا۔ نہ تو اس جگہ پر کوئی کیمرہ تھا کہ کسی کو پکڑے جانے کاکوئی ڈر ہو اور نہ میری ٹیبلٹ پر کوئی پاسورڈ لگا تھا کہ کسی کو خود استعمال کرنے میں کوئی دشواری ہو۔ لیکن اس کے باوجود میری ٹیبلٹ اسی طرح چھ دن تک پڑی رہی اور اگر میری نظر نہ پڑتی تو نہ جانے کتنے دن اور اسی طرح پڑی رہتی۔ 

پھر مجھے اپنے ایک انڈونیشین دوست کا سماجی تجربہ (سوشل ایکسپیریمنٹ) یاد آیا۔اسے ایک بار رستے میں ایک سمارٹ فون گرا ہوا نظر آیا تو وہ ایک کونے میں چھپ کر وڈیو بنانے لگا کہ دیکھیں فون ملنے پر راہ گیروں کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔ وہ دس منٹ تک وڈیو بناتا رہا لیکن کسی ایک شخص نے بھی فون کو ہاتھ تک نہ لگایا۔ کئی لوگوں نے فون دیکھا نہیں، جنہوں نے دیکھا انہوں نے بھی ایسا رویہ رکھا گویا کہ انہوں نے دیکھا ہی نہیں۔ ایک آدھ بار کسی راہ گیر نے انجانے میں فون کو ٹھوکر بھی مار دی لیکن اس اللہ کے بندے نے بھی فون کو ہاتھ تک نہیں لگایا۔ دس منٹ بعد میرے دوست نے تھک کر وڈیو بنانا بند کر دی اور اپنی راہ لی۔ جبکہ فون ابھی بھی ادھر ایسے ہی پڑا تھا۔ 

جاپان میں گمشدہ اشیا کے متعلق یہ قانون ہے کہ جس کو ملے اسے وہ چیز پولیس اسٹیشن پہنچانی ہوتی ہے۔ پولیس اس کی پوری رپورٹ لکھتی ہے جس میں ایک گھنٹے سے اوپر بھی لگ سکتا ہے۔ پھر وہ چیز پولیس اپنے پاس رکھتی ہے اور ایک معین مدت تک اس کے مالک کا پتا لگانے کی کوشش کرتی ہے۔ اس مدت تک مالک نہ ملے تو پھر پولیس اس شخص سے رابطہ کرتی ہے جس نے رپورٹ درج کروائی تھی اور وہ چیز قانونی طور پر اس شخص کی ملکیت میں دے دی جاتی ہے۔ یہ کاروائی اتنی لمبی اور وقت طلب ہے کہ اکثر لوگ اس جھمیلے میں پڑتے ہی نہیں اور راہ میں پڑی چیز مدت تک ایسے ہی پڑی رہ جاتی ہے۔ 

پھر مجھے پاکستان میں اپنے تجربات یاد آنے لگے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ جیب سے کوئی چیز گری اور چند منٹ بعد بھی اسے واپس لینے پہنچے تو وہ ایسے غائب ہوتی جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ بچپن میں کئی بار کھیلتے ہوئے جیب سے کوئی چیز گری جو بعد میں تلاشی لینے پر اپنے ہی کسی دوست کی جیب سے برآمد ہوئی۔ وہ دوست صاحب شرمندہ ہونے کے بجائے اپنی حرکت کا دفاع کرتے کہ یہ چیز تو مجھے اللہ کی زمین سے ملی ہے، تم کون ہوتے ہو اسے واپس لینے والے! گویا اس پوری زمین کے مالک مابدولت ہی ہیں اور اس زمین کی ہر چیز پر ان کی اجارہ داری ہے۔نہ جانے بچوں کو ایسے ڈائیلاگ کون سکھاتا ہے؟ اتنے بچپن سے ہی انہیں کرپشن کی تربیت کون دیتا ہے؟

خیر بچوں کی حرکتیں تو ان کی ناسمجھی اور معصومیت کے سبب نظر انداز کی جا سکتی ہیں۔ لیکن بڑوں کا کیا کیا جائے؟ مجھے اپنی انجینیرئنگ کے زمانے کے نسٹ کے واقعات یاد آنے لگے۔ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم لیب میں بیٹھے کسی پروجیکٹ پر کام کر رہے تھے۔چند منٹ کے لئے باتھ روم یا نماز پڑھنے گئے، واپس آئے تو پروجیکٹ غائب۔ معلوم ہوتا تھا کہ کسی ضرورت مند کو اللہ کی زمین سے پروجیکٹ مل گیا اور وہ اسے لے کر رفوچکر ہو گیا۔ پورا پروجیکٹ ہمیں نئے سرے سے دوبارہ بنانا پڑا۔دوسری دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم نے پورا سال لگا کر ایک روبوٹ بنایا تھا۔ ایک دن بڑی غلطی ہوئی کہ اپنا روبوٹ کچھ گھنٹوں کے لئے ایک کلاس روم میں چھوڑ آئے۔ جب واپس آئے تو روبوٹ کے چاروں پہیئے ٹوٹ چکے تھے اور اس کی ساری وائرنگ ادھڑی ہوئی تھی۔غالبا کسی منچلے نے روبوٹ کو اونچائی سے نیچے گرا کر ٹیسٹ کیا تھا۔ پھر بھی تسلی نہ ہوئی تو تاروں کو مٹھی میں پکڑ کر کھینچ ڈالا۔ اپنے ہاسٹل والے دوستوں سے بات کی کہ ہم اپنے پروجیکٹ تمہارے کمرے میں رکھ دیا کریں؟ انہوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ ہاسٹلوں میں بہت چوریاں ہوتی ہیں۔ ہمارےاپنے فون اور پیسے کئی بار چوری ہو چکے ہیں تو ہم تمہارے پروجیکٹ کی حفاظت کی کیسے گارنٹی دے سکتے ہیں؟ اور یہ نسٹ کا حال ہے جسے پاکستان کی بہترین یونیورسٹی سمجھا جاتا ہے۔ جس میں پورے پاکستان سے اپنے اپنے بورڈز میں پوزیشن لینے والے آ کر پڑھتے ہیں۔ اگر قوم کے بہترین دماغ رکھنے والے ادارے میں لوگوں کی اخلاقی حالت ایسی ہے تو ہم کسی اور سے کیا توقع رکھیں؟ 

اسلامی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو ایسے رویے اور ایسی اخلاقی پستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پرفرمایا : یقیناً تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن(یومِ نحر، دس ذی الحجۃ) کی حرمت تمہارے اس مہینے (ذی الحجۃ) اور اس شہر(مکہ مکرمہ) میں ہے ۔(صحیح بخاری:۲۵/۲۱۷، صحیح مسلم: ۲۸/۴۳، ریاض الصالحین:۱۸/۱۴

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اور نہ ہی ایک دوسرے کی بولی کے اوپر بولی دے کر قیمتیں بڑھاؤ، اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو ،اور نہ ہی ایک دوسرے سے رو گردانی کرو، اور تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہو جاؤ۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقوٰی یہاں ہے ۔کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ۔ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر پورا پورا حرام ہے اس کا خون ،اور اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو۔ (صحیح مسلم: ۴۵/۴۰، اربعین نووی: ۳۵، ریاض الصالحین: ۱/۲۳۵، بلوغ المرام: ۱٦/۱۴۹٦

رستے میں گری پڑی چیزوں کے متعلق بھی اسلامی تعلیمات بہت واضح ہیں۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد اور سنن ابن ماجہ وغیرہ میں اس کے متعلق ایک پورا باب موجود ہے جسے کتاب اللقطعۃ کہا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں اس باب کی پہلی حدیث ملاحظہ کر لیں۔ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے سو دینار کی ایک تھیلی ( کہیں راستے میں پڑی ہوئی ) پائی ۔ میں اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کا اعلان کرتے رہو ۔ میں نے ایک سال تک اس کا اعلان کیا ، لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو اسے پہچان سکتا ۔ اس لیے میں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک سال تک اس کاا علان کرتے رہو ۔ میں نے پھر ( سال بھر ) اعلان کیا ۔ لیکن اس کا مالک مجھے نہیں ملا ۔ تیسری مرتبہ حاضر ہوا ، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس تھیلی کی بناوٹ ، دینار کی تعداد اور تھیلی کے بندھن کو محفوظ رکھو ۔ اگر اس کا مالک آ جائے تو ( علامت پوچھ کے ) اسے واپس کر دینا ، ورنہ اپنے خرچ میں اسے استعمال کر لینا چنانچہ میں اسے اپنے اخراجات میں لےآیا ۔(صحیح بخاری: ۴۵/۱

ہمارے ہاں نہ جانے کیوں ترقی کا معیار اونچی عمارتوں، چمکتی سڑکوں، لمبی گاڑیوں اور بڑے بینک بیلنس کو سمجھ لیا جاتا ہے۔میرے نزدیک اصل ترقی یہ نہیں۔ ترقی یافتہ ملک وہ نہیں جہاں سب کے پاس بڑی گاڑی ہو، بلکہ ترقی یافتہ ملک وہ ہیں جہاں امراء بھی عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ جہاں وہ سرکاری سکولوں میں اپنے بچے پڑھائیں اور سرکاری ہسپتالوں سے اپنا علاج کرائیں۔ اور ایسی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قوم کا اپنا کردار بلند نہ ہو۔ جہاں لوگوں کی جان، مال اور عزت دوسروں کی دست درازیوں سے محفوظ ہو۔ جہاں سچائی، دیانت داری اور امانت داری کا یہ عالم ہو کہ لوگ ایک دوسرے پر اعتبار کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہ کریں اور کسی کو اپنے اعتبار کی قیمت ادا نہ کرنی پڑے۔اگر کوئی قوم ترقی کرنے کی خواہشمند ہو تو اسے اپنے اخلاق کو اعلٰی بنانا پڑتا ہے، اپنا کردار بلند کرنا پڑتا ہے ۔ اصل ترقی یہ ہے۔ مہذب قوم اسے ہی کہا جاتا ہے جس کا اخلاق و کردار بلند ہو۔ میں نے جاپان میں یہ سب دیکھا ہے۔ نہ جانے ہم اس سطح پر کب پہنچ پاِئیں گے؟ نہ جانے کب اپنا بُھولا ہوا صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق یاد کریں گے؟ 

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا 
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا 

پسِ نوشت:
یہ تحریر دلیل ڈاٹ پی کے پر ۲۱ نومبر ۲۰۱۹ء کو شائع ہو چکی ہے۔