سوشل میڈیا اور اعمالِ جاریہ

اعمالِ جاریہ سے مراد وہ اعمال ہیں جن کی جزا ہمیں یہ عمل کر چکنے کے بعد بھی ملتی رہتی ہے چاہے بیشک وہ عمل کئے ہوئے ہمیں عرصہ بیت گیا ہو اور اب ہم اس میں عملی طور پر شامل نہ ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ عمل ہماری یادداشت سے بھی محو ہو چکے ہوں۔ لیکن یہ ہمارے نامۂ اعمال سے محو نہیں ہوتے اور ہمیں مسلسل ان کا اجر ملتا رہتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اعمال صرف ہماری ذات تک محدود نہیں بلکہ ان کے دوررس نتائج ہوتے ہیں اور لوگ ان سے مسلسل متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ اعمال تو ایسے ہیں جو ہمارے مرنے کے بعد بھی منقطع نہیں ہوتے اور ہمیں ان کا اجر مرنے کے بعد بھی مسلسل ملتا رہتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب انسان مر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں (۱) صدقہ جاریہ (۲) یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے (۳) یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے۔ (صحیح مسلم: ۲۵/۲۰، سنن ابی داؤد: ۱۸/۱۹، سنن نسائی: ۳۰/۴۱، جامع ترمذی: ۱۵/۵۷، سنن ابن ماجہ: ۱/۲۴۷، ریاض الصالحین:۷/۵۵)

اس دور میں سوشل میڈیا نے ہمارے لئے یہ شاندار موقع پیدا کیا ہے کہ ہم اس کے ذریعے علمِ نافع کی ترویج کریں اور اپنے لئے اعمالِ جاریہ کی جزا کا اہتمام کریں۔ ہمیں شاید یہ خود بھی احساس نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا پر ہم جو لکھتے ہیں یا شئیر کرتے ہیں، اسے کتنے لوگ پڑھتے اور دیکھتے ہیں۔ نہ جانے کتنے لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور جب مزید لوگ اسے شئیر کرتے رہتے ہیں تو یہ علم نہ جانے آگے کتنے لوگوں تک پہنچتا رہتا ہے۔ 

لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ سوشل میڈیا نے ہمیں نیکی کی ترویج کا ایک زبردست موقع تو ضرور دیا ہے، لیکن یہی سوشل میڈیا برائی کے پھیلاؤ کا ایک بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔ بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر جو مواد شئیر کرتے ہیں وہ بالکل بیکار اور بے فائدہ ہوتا ہے۔ ہم میں بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو برائی اور بے حیائی کی باتیں شئیر کرنے میں بھی ذرا نہیں ہچکچاتے۔

ایک بات جس سے مجھے بہت خوف آتا ہے وہ یہ ہے کہ کہیں سوشل میڈیا ہمارے لئے ان اعمالِ جاریہ کا سبب نہ بن جائے جن کا اندراج ہمارے نامہٰ اعمال میں بطور گناہ مسلسل جاری رہے۔ جس طرح لوگ ہمارے نیک اعمالِ جاریہ سے مسلسل فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں، اسی طرح ہمارے برے اعمالِ جاریہ سے بھی لوگوں کو مسلسل نقصان ہو سکتا ہے۔ ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ سوشل میڈیا پر ہم جوبرائی ہم شئیر کرتے ہیں، اس سے کتنے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ اور جب مزید لوگ اسے شئیر کرتے رہتے ہیں تو یہ برائی نہ جانے آگے کتنے لوگوں تک پہنچتی رہتی ہے۔ 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے اچھا طریقہ جاری کیا اور اس میں اس کی اتباع کی گئی تو اس کے لئے بھی اس کے متبعین کے برابر ثواب ہوگا اور ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ جبکہ اگر کسی نے برائی کے کسی طریقے کو رواج دیا اور لوگوں نے اس کی اتباع کی تو اس کے لئے بھی اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا اس کی اتباع کرنے والوں کے لئے اور ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ (جامع ترمذی:۴۱/۳۱، صحیح مسلم: ۱۲/۸۸،سنن نسائی: ۲۳/۳۰، سنن ابن ماجہ: ۱/۲۰۹)

میری آپ سب سے درخواست ہے کہ آپ سوشل میڈیا کو اپنی تباہی کا ذریعہ نہ بننے دیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ بھی شئیر کرنے سے پہلے ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیئے کہ جو چیز میں شئیر کر رہا ہوں وہ میرے نیک اعمال میں اضافے کا سبب بنے گی یا برے اعمال کو بڑھائے گی؟ پوری کوشش کریں کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہم سے برے اعمالِ جاریہ سرزد ہونے نہ ہوں اور کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ ہمارے نیک اعمال کو بھی ضائع کرنے کا سبب بن جائے۔ اگر آپ کوسوشل میڈیا پر کوئی برائی اور بے حیائی کی بات نظر آئے تو برائے مہربانی اسے انٹرٹینمنٹ کے نام پر یا سنسنی خیز خبر کے طور پر دوسروں کے ساتھ شئیر نہ کریں۔ ہمیں ان لوگوں کی صف میں شامل نہیں ہونا چاہیئے جو معاشرے میں بے حیائی کا فروغ چاہتے ہیں۔ 

اللہ تعالٰی نے فرمایا: جو لوگ مسلمانوں میں بےحیائی پھیلانے کے آرزومند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں، اللہ تعالٰی سب کچھ جانتے ہیں اور تم کچھ بھی نہیں جانتے۔ (سورۃ النور: ۱۹)

تمام بنی آدم خطاکار ہیں۔ ہم میں کوئی شخص ایسا نہیں اور نہ ہی کوئی ایسا ہو سکتا ہے جس سے کسی غلطی، کسی کوتاہی اور کسی گناہ کا ارتکاب نہ ہو جاتا ہو۔ اگر کسی سے کوئی بری حرکت سرزد ہو گئی ہے، کوئی گناہ ہو گیا ہے تو اس کا جواب، اس کا حساب اسے اللہ تعالٰی کو دینا ہو گا۔ ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے اس گناہ کے بارے میں لوگوں کو بتائیں اور برائی کو مزید پھیلاتے چلے جائیں۔ ہمیں تو لوگوں کے گناہوں اور کوتاہیوں کی پردہ پوشی کی ہدایت کی گئی، انہیں نشر کرنے کی نہیں۔ 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندہ دنیا میں کسی بندے کے عیب چھپائے گا، قیامت کے دن اللہ تعالٰی اس کے عیب چھپائیں گے۔ (صحیح مسلم: ۴۵/۹۳،سنن ابی داؤد: ۴۳/۱۲۱، سنن ابن ماجہ: ۱/۲۳۰، بلوغ المرام: ۱٦/۱۴٦۵)

عین ممکن ہے کہ کسی شخص سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے لیکن اسے اللہ تعالٰی توبہ کرنے کی توفیق دے دیں۔ اس کی توبہ مقبول ہو اور مرنے کے بعد اس کا ٹھکانہ جنت میں ہو۔ لیکن وہ لوگ جو اس کے گناہوں کو نشر کرتے رہے اور لوگوں میں برائی پھیلاتے رہے، انہیں توبہ کی توفیق نہ ملے اور وہ مرنے کے بعد دوزخ میں داخل کئے جائیں۔ 

سوشل میڈیا علم کے فروغ اور رائے کے اظہار کا ایک بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ لیکن اس کے استعمال میں احتیاط بھی بہت ضروری ہے۔ آپ سوشل میڈیا ضرور استعمال کریں، لیکن احساسِ ذمہ داری کے ساتھ! یہ بات ہمیشہ مدِ نظر رہنی چاہیئے کہ ہم اپنے ہر عمل کے لئے اللہ تعالٰی کے حضور جواب دہ ہوں گے۔ اللہ تعالٰی مجھے، آپ کو اور باقی تمام لوگوں کو ہدایت کی دولت سے نوازیں اور ہمیں ہر فتنے سے محفوظ رکھیں۔ آمین۔