اس دنیا میں ہر انسان نے اپنے دل میں کچھ خواہشات پالی ہوتی ہیں، ہر کسی نے اپنی آنکھوں میں کچھ سپنے سجائے ہوتے ہیں۔ لیکن ہر انسان میں یہ اہلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دھار سکے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس زندگی میں اپنی تمام تر نہ سہی، بیشتر خواہشات کو ہی پایۂ تکمیل تک پہنچتا دیکھ پاتے ہیں۔
یقینًا بہت سے امور انسان کے بس سے باہر ہوتے ہیں۔ انسان اپنی بھرپور محنت، اعلٰی صلاحیت، پختہ ارادے، سازگار ماحول اور میسر وسائل کے باوجود بھی بسا اوقات اپنی منزل تک نہیں پہنچ پاتا۔ یہاں آ کر انسان اپنی تقدیر کے ہاتھوں بے بس ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جو انسان کو غرور کے عمیق گڑھوں میں گرنے سے بچاتا ہے۔ ورنہ تو ہر کامیاب شخص خدائی کا دعوٰی کرنے لگ جائے۔ انسان اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے خالق کو پہچانتا ہے۔ اپنی ناکامی سے اسے اپنی کم مائیگی کا عرفان حاصل ہوتا ہے اور اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں تو صرف کوشش ہے، نتیجہ تو کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
لیکن بنی نوع انسان کی کثیر تعداد ان لوگوں پر مشتمل نہیں جو اپنی محنت، صلاحیت اور ارادے کے باوجود منزل تک نہیں پہنچ پاتے۔ بلکہ بنی آدم کی اکثریت ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اپنی منزل کے حصول کے لئے چند قدم چلنے کے بعد ہی ہمت ہار جاتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ تو ایسے بھی ہیں جو اس راہ میں ایک قدم بھی نہیں اٹھا پاتے۔
اگر آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ کا شمار ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی منزل کی تلاش میں رواں دواں ہیں یا ان لوگوں میں سے جس کے نزدیک منزل صرف ایک خواب ہی ہے تو آپ صرف یہ دیکھ لیں کہ کم ازکم وہ نعمت جو ہر انسان کو یکساں طور پر عطا کی جاتی ہے، اس نعمت کا کتنا حصہ آپ اپنی منزل کے حصول پر خرچ کرتے ہیں؟
ہر انسان کو دن میں ۲۴ گھنٹے ملتے ہیں۔ یہ وقت سب کے لئے برابر ہے۔ کسی شخص کو نہ ایک گھنٹہ زیادہ مل سکتا ہے نہ ایک گھنٹہ کم۔ گویا وقت ایک ایسی دولت ہے جو، کم از کم روزانہ کی بنیاد پر، دنیا کے ہر انسان میں یکساں تقسیم کی جاتی ہے۔ اب یہ ہر انسان کے اپنے اوپر ہے کہ وہ اس دولت کو کہاں اور کیسے خرچ کرتا ہے۔
اگر آپ طالب علم ہیں اور آپ واقعی حصول علم میں سنجیدہ ہیں تو پھر یہ دیکھیں کہ آپ دن کا کتنا حصہ علم حاصل کرنے میں صرف کرتے ہیں؟ اگر آپ واقعی اچھے مسلمان بننا چاہتے ہیں اور جنت کا حصول آپ کا نصب العین ہے، تو پھر آپ یہ دیکھیں کہ آپ دن کا کتنا حصہ دین سیکھنے میں اور اس پر عمل کرنے میں گزارتے ہیں؟ وھذا القیاس۔
کوئی بھی بڑا کام فورًا نہیں ہو جاتا۔ اس کے لئے مہینوں بلکہ سالوں کی محنت اور ریاضت درکار ہوتی ہے۔ آپ جس چیز میں اپنا وقت استعمال کرتے ہیں، وہی چیز آپ کی پہچان بنتی چلی جاتی ہے اور وہی چیز آپ کے مستقبل کا رخ متعین کرتی ہے۔ ہر دن کے اختتام پر، رات سونے سے پہلے، خود سے یہ سوال ضرور کریں کہ آج میں نے جو کچھ کیا ہے، کیا اس کی وجہ سے میں اپنی منزل کے کچھ قریب آیا ہوں؟ یا وہیں کھڑا ہو جہاں کل کھڑا تھا؟ یا الٹا آج میں منزل سے کچھ اور دور ہو گیا ہوں؟
کس کام میں آپ نے دن کا کتنا وقت صرف کرنا ہے، یہ فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔ اپنی ترجیحات کا تعین انسان نے خود کرنا ہوتا ہے۔ آپ کا مستقبل کا کیسا ہو گا؟ اس بات کا فیصلہ بڑی حد تک آپ کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہے۔