بعض معصوم لوگوں کو “اعتدال” کا اتنا شوق ہو جاتا ہے کہ وہ ہر اختلافی معاملے میں بیچ کا رستہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی کو حق سمجھتے ہیں۔
۔
حالانکہ بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں “بیچ” کا رستہ اپنانا ہمارے لئے ممکن ہی نہیں۔ مثلاً سچ اور جھوٹ میں کوئی اعتدال نہیں ہو سکتا، ظالم اور مظلوم میں کوئی اعتدال نہیں ہو سکتا، حق اور باطل میں کوئی اعتدال نہیں ہو سکتا، اسلام اور کفر میں کیا کوئی اعتدال ہو سکتا ہے؟ رحمان اور شیطان میں بھلا کیا اعتدال ہو سکتا ہے؟
۔
ایسے تمام معاملات میں اول تو منطقی اور شرعی اعتبار سے کوئی اعتدال کی راہ بنانا ممکن ہی نہیں۔ اور اگر کوئی شخص ایسی کوشش کرتا بھی ہے تو وہ اعتدال نہیں پائے گا بلکہ وہ نرا دوغلا پن ہو گا۔ نہ وہ ادھر کا رہے گا، نہ ادھر کا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ باطل کے مقابلے میں ایک دوسرا باطل، ظلم کے مقابلے میں ایک اور ظلم اور کفر کے مقابلے میں ایک اور کفر لے آئے۔
۔
الله تعالٰی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ:
یا ایھا الذین اٰمنو ادخلوا فی السلم کافة (البقرۃ: ۲۰۸)
اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ
۔
ہم نے اسلام کو ماننا ہے اور پورا ماننا ہے۔ اس میں کوئی اگر مگر چونکہ چنانچہ کی گنجائش نہیں۔
۔
حالانکہ بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں “بیچ” کا رستہ اپنانا ہمارے لئے ممکن ہی نہیں۔ مثلاً سچ اور جھوٹ میں کوئی اعتدال نہیں ہو سکتا، ظالم اور مظلوم میں کوئی اعتدال نہیں ہو سکتا، حق اور باطل میں کوئی اعتدال نہیں ہو سکتا، اسلام اور کفر میں کیا کوئی اعتدال ہو سکتا ہے؟ رحمان اور شیطان میں بھلا کیا اعتدال ہو سکتا ہے؟
۔
ایسے تمام معاملات میں اول تو منطقی اور شرعی اعتبار سے کوئی اعتدال کی راہ بنانا ممکن ہی نہیں۔ اور اگر کوئی شخص ایسی کوشش کرتا بھی ہے تو وہ اعتدال نہیں پائے گا بلکہ وہ نرا دوغلا پن ہو گا۔ نہ وہ ادھر کا رہے گا، نہ ادھر کا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ باطل کے مقابلے میں ایک دوسرا باطل، ظلم کے مقابلے میں ایک اور ظلم اور کفر کے مقابلے میں ایک اور کفر لے آئے۔
۔
الله تعالٰی نے ہمیں حکم دیا ہے کہ:
یا ایھا الذین اٰمنو ادخلوا فی السلم کافة (البقرۃ: ۲۰۸)
اے ایمان والو! اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ
۔
ہم نے اسلام کو ماننا ہے اور پورا ماننا ہے۔ اس میں کوئی اگر مگر چونکہ چنانچہ کی گنجائش نہیں۔