سقوطِ بغداد، سقوطِ غرناطہ، دہلی کا لٹنا، خلافت کا خاتمہ، کشمیر کا چھن جانا، سقوطِ یروشلم ، سقوطِ ڈھاکہ وھذا لقیاس۔
۔
کچھ زخم ایسے ہیں جو اتنا وقت گزرنے کے بعد بھی بھرنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ برسوں بعد بھی ان میں سے خون رستا رہتا ہے۔ ہر سال ان کی کسک نئی سرے سے محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ زخم ان لوگوں کے ساتھ ختم نہیں ہوئے جنہیں یہ زخم دیے گئے تھے، بلکہ یہ زخم نسل در نسل منتقل ہوتے رہے ہیں اور یوں یہ ہماری قوم کے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان واقعات میں ہمارے لئے سبق بھی ہے اور عبرت بھی۔ ہمیں ان میں ہمت، وفاداری، شجاعت اور قربانی کی داستانیں بھی ملتی ہیں، اور بزدلی، غداری، مایوسی اور خود غرضی کے قصے بھی۔
۔
لیکن اگر ہم قومیت کی سطح سے بلند ہو کر حق و باطل کی سطح کو سامنے رکھ کر سوچیں تو ان زخموں کی شدت میں کمی آنے لگتی ہے۔ ہمیں یہ زخم اس لئے دکھ دیتے ہیں کیونکہ یہ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہماری قوم مغلوب ہوئی، پر حق کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔ ہمیں رنج ہوتا ہے جب ہماری قوم کو شکست ہوتی ہے، مگر حق کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ میری قوم پر زوال آ سکتا ہے لیکن حق کو کوئی زوال نہیں۔ اور جو حق کے لئے مارے جائیں وہ شہید ہیں اور شہید مرتے نہیں بلکہ ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔
۔
ہمیں اپنی تاریخ میں غزوۂ احد کو نہیں بھولنا ہے جب مسلمانوں کو شدید صدمہ سہنا پڑا، لیکن ان صدمات سے گزر کر ہی فتح مکہ کی منزل آئی۔ اسلام غالب ہوا، مسلمانوں کو نصرت اور فتح نصیب ہوئی اور لوگ فوج در فوج اسلام کے حلقے میں داخل ہونے لگے۔
دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جسے کبھی شکست نہ ہوئی ہو۔ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو کبھی مغلوب نہ ہوئی ہو۔ زندہ قومیں وہ ہوتی ہیں جو اپنی تاریخ سے سیکھتی ہیں، گرنے کے بعد فورًا اٹھ کھڑی ہوتی ہیں، اور فتح ہو یا شکست اپنے شہداء اور غازیان کی قربانیوں کو یاد رکھتی ہیں۔ ایک مسلمان کے لئے شہادت سے بڑا کوئی رتبہ نہیں، جسے شہادت ملی وہ کامیاب ہو گیا۔ شہادت موت نہیں ہے بلکہ یہ زندگی ہے، یہ حیاتِ دوام ہے جس کا کوئی اختتام نہیں۔
۔
کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد
مری نگاہ نہیں سوئے کوفہ و بغداد
۔
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
۔
نوٹ:
یہ تحریر دلیل ڈاٹ پی کے پر ۳ اکتوبر ۲۰۱۹ء کو شائع ہو چکی ہے۔
https://daleel.pk/2019/10/03/114290