بڑی برائی اور چھوٹی برائی میں انتخاب


موجودہ جمہوری نظام میں ووٹ دینے کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی آپ سے پوچھے کہ پستول کی گولی سے مرنا بہتر ہے یا چاقو کے وار سے؟ اور آپ بندوق کی گولی سے مارا جانا پسند کر لیں کیونکہ اس میں تکلیف کم ہوتی ہے۔ ہم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ مرنا ضروری نہیں ہے؟ کیا ضروری ہے کہ ہم خود اپنے ہاتھ سے ہر بار چھوٹی برائی کا انتخاب کرتے رہیں؟ اور یوں ہر بار برائی کا انتخاب کر کر کے اچھائی کو آگے ہی نہ آنے دیں؟؟


پہلی بات تو یہ ہے کہ ووٹ میں “کوئی بھی نہیں” کا خانہ ہونا چاہیے تاکہ ہمارے پاس یہ اختیار ہو کہ تمام امیدواروں کو رد کر سکیں۔ بھارت سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں یہ خانہ ہوتا ہے ۔ اب اگر ہمارے ووٹ میں یہ خانہ نہیں ہے تو ہم یہ تو کر سکتے ہیں کہ ووٹ کے اوپر مارکر یا پین سے ایک بڑا سا کراس کا نشان لگائیں اور لکھ دیں کہ ان میں سےکوئی امیدوار ہمارے لئے قابل قبول نہیں۔


ووٹ نہ دینا اپنی رائے دینے کے حق کو ضائع کرنا ہے اور کسی نا اہل کو ووٹ دینا اس حق میں خیانت اور برائی کو پھیلانے کا مؤجب ہے۔اگر آپ کو کوئی امیدوار مناسب نہیں لگتا تو تمام نااہل امیدواروں کو رد کر کے اپنی رائے کا اظہار کریں تاکہ اگلی بار تمام سیاسی پارٹیاں امیدواروں کے چناؤ میں احتیاط کریں اور الیکشن کمیشن ووٹ میں “کوئی بھی نہیں” کے خانے کا اضافہ کرے۔


پسِ نوشت:

میری یہ تحریر سوچ سوسائٹی کی جانب سے ۲۴جولائی ۲۰۱۸ء کو شئیر کی گئی۔

https://www.facebook.com/vocesinaudita/posts/2048362725480235