تعارفِ کتاب: وجودِباری تعالٰی از ڈاکٹر حافظ محمد زبیر

مصنف کا تعارف

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ نے ۲۰۱۲ء میں پنجاب یونیورسٹی سے اسلامی فقہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔ آپ ریسرچ فیلو مجلسِ تحقیق اسلامی لاہور اور ریسرچ فیلو شعبہ تحقیق قرآن اکیڈمی لاہور بھی رہے ہیں۔اب تک آپ کی کئی کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں وجودِ باری تعالٰی، صالح اور مصلح، فکرِ غامدی: ایک تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ، مولانا وحید الدین خان: افکار ونظریات،اسلا م اور مستشرقین ، عصر حاضر میں تکفیر، خروج،جہاد اور نفاذ شریعت کا منہج، چہرے کا پردہ واجب، مستحب یا بدعت شامل ہیں۔ اس کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی جریدوں میں آپ کے درجنوں تحقیقی مقالے شائع ہو چکے ہیں۔ آپ ابوالحسن علوی کے قلمی نام سے بھی لکھتے رہے ہیں۔

ذاتی تاثرات

یہ ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب کی پانچویں کتاب ہے جسے میں نے اول تا آخرمکمل پڑھا ہے۔ یہ کتاب ان کی اب تک کی تصنیفات میں سے سب سے پیچیدہ اور دشوار ثابت ہوئی۔ بالخصوص فلسفے کے جو مسائل اس میں زیرِ بحث لائے گئے ہیں انہیں سمجھنا میرے جیسے مبتدی کے لئے آسان نہ تھا۔ اس امر کا اعتراف فاضل مصنف نے خود بھی اس کتاب کے مقدمے میں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسفہ اور سائنس باقاعدہ علوم ہیں اور ان علوم میں وجودِ باری تعالٰی کی ابحاث سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ان علوم کی مبادیات سے واقف ہوں۔ بہرکیفاس کتاب کی بدولت اتنا تو ہوا ہے کہ فلسفے کی بہت سے اصطلاحات کو سمجھنے میں مدد ملی ہے اور کئی نئی اصطلاحات سے متعارف ہونے کا موقع ملا ہے۔ یہ کتاب ایک ہی نشست میں ختم نہیں کی جا سکتی بلکہ اسے تدریجأ اور سہج سہج کے پڑھنا بہتر ہے۔

کتاب کا موضوع

یہ کتاب الہٰیات کے متفرق مسائل اور ان مسائل کو دیکھنے کے مختلف نکاتِ نظر کے متعلق ابحاث  پر مشتمل ہے۔ خالقِ کائنات کی ذات کے متعلق تجسس اور جستجو انسان کی فطرت کا حصہ ہے۔ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ہر انسان خود سے سوال ضرور کرتا ہے کہ مجھے اور اس پوری کائنات کو کس ہستی نے تخلیق کیا؟ اور میری اس زندگی کا مقصد کیا ہے؟ ان سوالات کا جواب ہمیں فلسفہ، سائنس اور مذہب نے اپنے اپنے طور پر دینے کی سعی کی ہے۔ ڈاکٹر زبیر اس حوالے سے یہ منفرد مقام رکھتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف ان تینوں علوم کے نکتۂ نظر کو ایک ہی کتاب میں پیش کر دیا بلکہ ان تینوں علوم کے اس مضمون کے متعلق قدیم و جدید نظریات اور رجحانات کی بھی عکاسی کی۔ انہی شعبہ جات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کتاب کو تین ابواب میں منقسم کیا گیا ہے۔

باب اول:وجودِ باری تعالٰی اور فلسفہ و منطق

اس باب میں تخلیق کے بارے میں چار نظریات کا تعارف کرایا گیا ہے اور پھر مختلف فلاسفہ اور فقہاء کے مابین اختلافات کو گیارہ مسائل پر بحث کر کے واضح کیا گیا ہے۔

تخلیق کے بارے میں پہلا نظریہ فیض کہلاتا ہے۔ یہ نظریہ یونانی فلسفی فلاطینوس نے پیش کیا تھا- اس نظریے کا لبِ لباب  یہ ہے کہ اصل حقیقت ایک واحد ہستی ہے جسے واحد مطلق کا نام دیا گیا۔ واحد مطلق کے بلا ارادہ فیضان  سے عقل  کا صدور ہوا، عقل سے نفس کلی  کا صدور ہوا اور پھر اس نفس کلی سے مادی اجسام  کا صدور ہوا اور یوں تخلیق کا عمل مکمل ہوا۔ اس عمل کے پہلے تین مراتب (واحد مطلق، عقل اور نفس کلی) غیر حسی ہیں جبکہ چوتھا مرتبہ یعنی مادی اجسام حسی ہے۔ مسلمان فلاسفہ میں اس نظریہ کو ماننے والوں میں فارابی، ابن سینا، ابن رشد اور نصیر الدین طوسی شامل ہیں۔ امام غزالی نے اس نظریے پر تنقید کرتے ہوئے کہا اس نظریہ میں اللہ تعالٰی کی صفت تخلیق کو معطل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ امام ابن تیمیہ نے کہا کہ یہ نظریہ اللہ کا بیٹا ماننے کے برابر ہے۔ کیونکہ فیض کے جو معنی بھی مراد لئے جائیں اس میں تولد  لازم آتا ہے۔ لہذا اس نظریے کے مطابق عقل اللہ تعالٰی کی اولاد ہی ہوئی۔

تخلیق کے بارے میں دوسرا نظریہ عرفان کہلاتا ہے۔ اس نظریے کو پیش کئے جانے والوں میں پارمینائڈیز ، افلاطون اور شنکر اچاریہ کے نام لئے جاتے ہیں۔ نظریہ عرفان کے مطابق کائنات کے دو رخ ہیں۔ ایک اصل  اور دوسرا ظاہری ۔ شنکر اچاریہ کے ایک قول کا ترجمہ یوں کیا گیا کہ برہمن (خدا) اکیلا ہی حقیقت ہے جبکہ یہ دنیا ایک وہم ہے۔ لیکن انتہا کے اعتبار سے برہمن اور فرد کے نفس میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک اور ترجمہ یوں ہے کہ برہما ہی حقیقت ہے۔ یہ کائنات نہ تو حقیقت ہے اور نہ ہی غیر حقیقت، اور نفس نہ تو برہمن ہے اور نہ اس سے علیحدہ کوئی شے۔ اس نظریے کو شہاب الدین سہروردی اور ابن عربی نے تصوف میں متعارف کرایا اور اسے وحدت الوجود کا نام دیا گیا- یہ نظریہ آج بھی اہل تصوف میں بہت مقبول ہے۔ اس نظریہ پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ اگر حقیقی وجود صرف اللہ تعالٰی کا ہے اور اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور چیز کا حقیقی وجود نہیں ہے تو اس سے لازمأ اللہ تعالٰی کی صفات کا انکار لازم آتا ہے۔ مثلأ اس نظریے کے مطابق رب العالمین تو موجود ہے لیکن العالمین نہیں، خالق تو موجود ہے لیکن مخلوق نہیں، معبود تو موجود ہے لیکن عابد نہیں۔ جب تک مخلوق موجود ہی نہ ہو تو کوئی خالق، مالک، رازق، رحمٰن، رحیم، کریم ہونے کا دعوٰی کیسے کر سکتا ہے؟

تیسرا نظریہ سائنسدانوں کا پیش کیا ہوا ہے اور اسے نظریہ ارتقا کہتے ہیں۔ اس نظریے کہ مطابق تخلیق کی ابتدا ایک عظیم دھماکے سے ہوئی جس سے کائنات وجود میں آئی اور وجود میں آنے کے بعد اس نے پھیلنا شروع کیا۔ کائنات کے پھیلنے کا یہ عمل آج بھی جاری و ساری ہے۔ تخلیق کسی خالق کی محتاج نہیں بلکہ یہ اندھی بہری قوتوں کے زیر اثر ہونی والی اربوں سالوں سے جاری ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے۔

چوتھا نظریہ تخلیق ہے جو اللہ تعالٰی نے انبیاءکرام اور آسمانی کتابوں کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے۔ اس نظریہ کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ ازل سے خالق موجود تھا اور اس کے ساتھ کچھ بھی موجود نہ تھا۔ یہاں تک کہ اس نے سب سے پہلے پانی کو پیدا فرمایا اور اس کے بعد اپنا عرش بنایا۔ اس کے بعد قلم بنایا اور اسے قیامت تک جو ہونا ہے اس کے لکھنے کا حکم دیا۔ اس کے بعد خالق نے زمین، سات آسمان، ستارے اور تمام مخلوقات کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اپنے عرش پر مستوی ہوا۔ اس دنیا میں انسان کا وجود کسی اتفاق یا حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ خالق کی ایک بامقصد تخلیق ہے۔ خالق او مخلوق کا باہم تعلق عبد اور معبود کا ہے نہ کہ اعتبار و خیال یا عکس و ظلال کا۔

باب دوم: وجود باری تعالٰی اور سائنسی نظریات

اس باب میں تخلیق سے متعلق سائنسی نظریات بگ بینگ، اسٹرنگ تھیوری اور نظریہ ارتقا پر بحث کی گئی ہے۔ ان نظریات سے مصنف کو گِلا ہے کہ وہ کائنات کی تخلیق میں کیسے  کو تو واضح کرتے ہیں لیکن کیوں کے متعلق کوئی رہنمائی نہیں کرتے۔

پھر وہ یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ سائنس سے متاثر حضرات مذہب پر اعتراض کرتے ہیں کہ وہ خالق کی بتائی ہوئی باتوں پر اندھا ایمان لانے کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن دوسری طرف ان کا اپنا نظریہ تخلیق یعنی بگ بینگ کسی مشاہدے  یا تجربے  سے ثابت نہیں لہذا اسے مان لینا بھی اندھا ایمان ہی ہے۔ موجودہ سائنسی نظریے میں یہ کہا گیا ہے کہ قوانینِ فطرت  نے کائنات کو پیدا کیا ہے۔ اس پر نہایت منطقی سوال یہ بنتا ہے کہ پھر ان قوانینِ فطرت کو کس نے پیدا کیا ہے؟

پھر یہ نظریہ اس بات کی طرف بھی کوئی رہنمائی نہیں کرتا کہ جب بگ بینگ سے پہلے کچھ نہیں تھا تو اس "کچھ نہیں" کا مطلب کیا ہے؟ اور اس "کچھ نہیں" سے کائنات "خود بخود" کیسے وجود میں آ سکتی ہے؟ اس کائنات میں زندگی کے وجود کے لئے مناسب حالات کے پیدا ہونے کے لئے مطلوبہ ضروریات اتنی زیادہ اور اتنی مشکل ہیں کہ ان تمام کا اتفاقأ پورا ہو جانا نظریہ احتمال  کے خلاف ہے۔

اس کے بعد مصنف نے سائنس کے رستے آنے والے الحاد کے اسباب، ملحدین کے رویے، الحاد کا رد اور اس کے علاج پر بحث کی ہے جو میرے نزدیک اس باب کا مغز ہے۔ مصنف کا یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ الحاد ہماری تہذیب کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مغربی تہذیب سے درآمد شدہ ہے لہذا اس کی جڑوں کا ہمارے معاشرے میں پنپنا ویسے ہی مشکل ہے۔ الحاد کوئی علمی مسئلہ نہیں ہے کہ ہم اس کا علمی اور منطقی جواب تلاش کریں۔ خدا کے وجود کی دلیل ہمارے وجود کے اندر موجود ہے۔ خدا پر ایمان کوئی تصور نہیں بلکہ یہ ایک واقعہ ہے جو کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ خدا کے وجود کے بارے میں وسوسے اور تشویش کا علاج خدا کا کلام ہے۔ خدا کے وجود کی دلیل بھی وجودی، حالی اور شعوری ہوتی ہے نہ کہ عقلی، منطقی اور فکری۔

سائنس کو ماننے کا منطقی نتیجہ الحاد نہیں۔ بہت سے چوٹی کے سائنسدان ایسے گزرے ہیں جو نہ صرف خدا کے وجود پر یقین رکھتے تھے بلکہ سائنس نے ان کے اس یقین کو مزید پختہ کیا۔

اس باب کے آخر میں مصنف نے چوٹی کے سائنسدانوں کے خدا پر وجود پر ایمان رکھنے اور اس ایمان کے سائنس کی راہ میں مزاحم نہ ہونے کے بارے میں اقوال درج کئے ہیں۔ ان سائنسدانوں میں سر فرانسس بیکن، رینے ڈیکارٹ، سر آئزک نیوٹن، مائیکل فیریڈے، لوئی پاسچر، لارڈ کیلون، میکس پلانک، آئن سٹائین، ورنر ہائزنبرگ اور ڈاکٹر عبدالسلام شامل ہیں۔

باب سوم: وجودِ باری تعالٰی اور مذہب و کلام

اس وقت ہمارے پاس خدا کے وجود کے بارے میں سب سے مستند مصدر  کتاب و سنت ہیں۔ کتاب و سنت میں اللہ تعالٰی کے اسماء و صفات کے بارے میں جو نصوص وارد ہوئی ہیں وہ ہمارے لئے اللہ تعالٰی کی ذات کے تعارف کا سب سے بڑا اور سب سے مستند ذریعہ ہیں۔ ہمارے لئے خدا کی ذات کا ہر تعارف چاہے اس کا مصدر فلسفہ ہو، کشف ہو، فلاسفی آف سائنس ہو یا فلاسفی آف ریلیجن، اس وقت تک لغو، بیکار اور ناقابل قبول ہے جب تک وہ کتاب و سنت کی نصوص کی صریح اور واضح تصدیق حاصل نہیں کر لیتا۔
اللہ تعالٰی کے اسماء و صفات کے بارے میں اس امت میں دو انتہائیں پیدا ہو گئی ہیں جنہیں تعطیل اور تشبیہ کہتے ہیں۔ تعطیل یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے اسماء و صفات کا انکار کر دیا جائے اور تشبیہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے اسماء و صفات کی کیفیت بیان کی جائے۔ جبکہ سلف صالحین کا موقف یہ ہے کہ وہ نہ تو اسماء و صفات کے معنی کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی تشبیہ بیان کرتے ہیں۔ وہ ظاہری، لغوی اور عرفی معنی جاری کرتے ہیں لیکن اس کے معنی کی کیفیت بیان نہیں کرتے۔ امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: "سلف صلحین کا موقف ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کی ذات کو جن صفات سے موصوف کیا ہے تو ہم بھی انہی صفات سے اللہ کی ذات کو موصوف کریں اور ان میں کسی قسم کی تحریف(کسی لفظ کو اس کے اصل معنی سے پھیر دینا)، تعطیل (لفظ کے اصل معنی ختم کرنا)، تکییف(معنی کی کیفیت بیان کرنا) اور تمثیل(مثال دینا) بیان نہ کریں"۔

مثلأ مولانا پیر کرم شاہ "خلقت بیدی" کی تفسیر میں لکھتے ہیں: "اس کا لفظی مطلب تو یہ ہے کہ جس کو میں نے اپنے دو ہاتھوں سے پیدا فرمایا۔ کیا اللہ تعالٰی کے بھی ہاتھ ہیں؟ اسلاف کا مسلک یہ ہے کہ وہ ان کلمات کی تاویل نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ ہاں اللہ تعالٰی کے دو ہاتھ ہیں جس طرح آیت میں مذکور ہے۔ لیکن وہ کیسے ہیں؟ ان کی حقیقت کیا ہے؟ ہمیں اس کی خبر نہیں۔ اللہ تعالٰی خود ہی ان کی حقیقت کو جانتا ہے"۔

سلف کے موقف کے مطابق "ید" کے معنی کو ہاتھ کے بجائے قدرت بیان کرنا تحریف ہے، ید کا معنی ہاتھ لئے جانے سے انکار کرنا تعطیل ہے، تکییف یہ ہے ید کا معنی ہاتھ لے کر اس کی کیفیت بیان کرنا کہ ایسا ہاتھ ہے ویسا ہاتھ ہے اور تمثیل یہ ہے کہ اللہ کے ہاتھ کی مثال انسان کے ہاتھ سے دی جائے۔

اسماء و صفات سے متعلق سلف صالحین کے رویے کی مزید وضاحت امام مالک کے ذریعے ہوتی ہے جب ان سے ایک شخص نے سوال کیا کہ اللہ تعالٰی عرش پر کس طرح مستوی ہے؟ یہ سوال سن کر امام مالک کے پسینے چھوٹ گئے اور انہوں نے اپنا سر جھکا لیا اور تھوڑی دیر بعد فرمایا:"اللہ کا عرش پر مستوی ہونا معلوم ہے اور اس کی کیفیت سمجھ سے بالاتر ہے۔ اور اس کے عرش پر مستوی ہونے پر ایمان لانا واجب ہے۔ اور اس کے بارے میں مزید سوال کرنا بدعت ہے اور میرا خیال ہے کہ تُو بھی بدعتی ہے"۔ پس امام مالک نے اس شخص کے بارے میں حکم دیا کہ اسے ان کی مجلس سے اٹھا دیا جائے تو اسے ان کی مجلس سے اٹھا دیا گیا۔

قرآن کریم میں سات مقامات پر فرمایا گیا ہے کہ ہمارا رب زمین اور آسمانوں کی تخلیق کے بعد عرش پر بلند ہوا۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالٰی ہر جگہ موجود ہے صریح شرک ہے کیونکہ اس عقیدے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اللہ تعالٰی وہاں بھی موجود ہے جہاں میں اور آپ یا کوئی اور شے موجود ہے۔

مصنف نے عقائد میں پیدا ہونے والے علمی فتنوں کے ذمہ دار لوگوں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فرقوں کا تذکرہ کیا ہے جن میں جہمیہ، معتزلہ، ملاحدہ، لاادریہ، قرامطہ، فلاسفہ، باطنیہ، کلابیہ، اشاعرہ، ماتریدیہ، امامیہ، زیدیہ، اباضیہ، کرامیہ، غالی صوفیا اور روافض شامل ہیں۔

ان فرقوں کے غلط عقائد کے علمی رد اور صحیح عقائد کی وضاحت کے لئے متعدد علمائے کرام نے کتابیں تحریر فرمائیں۔ ان علما میں امام ابو حنیفہ، امام احمد ابن حنبل، امام بخاری، امام ابن قتیبہ، امام دارمی، امام ابن خزیمہ، امام ابو جعفر طحاوی، امام ابوالحسن اشعری، امام دار قطنی، امام بیہقی، امام ابن قدامہ المقدسی، امام ابن تیمیہ، امام ذہبی، اور امام ابن قیم شامل ہیں۔ ان محترم علمائے کرام کے اقوال اور باطل نظریات کا ابطال  اس باب کی سب سے خاصے کی چیز ہے۔

حرفِ آخر

زیرِ نظر کتاب ایک دقیق موضوع پر لکھی گئی لہذا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اس کی زبان عام فہم نہیں۔ خدا کے وجود کے بارے میں تین بالکل مختلف علوم کے نکتۂ نظر کو بخوبی بیان کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا جسے فاضل مصنف نے نہایت عمدگی سے نبھایا اور کتاب کی ضخامت کو بھی ایک حد سے آگے نہیں جانے دیا۔ اس کتاب کے کل صفحات کی تعداد ۲۲۴ ہے اور قیمت ۲٦۰ روپے ہے۔ جو لوگ ای بکس پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں ان کے لئے مصنف نے کتاب وسنت ڈاٹ کام پر یہ کتاب مفت ڈاؤنلوڈ کرنے کی سہولت فراہم کر رکھی ہے جس کے لئے ہم ان کے تہہِ دل سے مشکور ہیں۔ اللہ باری تعالٰی مصنف کے علم میں مزید اضافہ فرمائیں، ان کے قلم کو مزید روانی اور تاثیر نصیب ہو اور انہیں امت کی مزید خدمت کرنے کی توفیق ملے۔ آمین۔