علامہ محمد اسد کا انگریزی زبان میں یہ طویل مضمون پاکستان کے قیام سے صرف چند ماہ پہلے ماہنامہ عرفات کے مئی ۱۹۴۷ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا اور بعد میں اسے کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا۔ جو سوالات اس مضمون میں اٹھائے گئے ہیں اور جو نکات زیرِ بحث لائے گئے ہیں ان کی اصل اہمیت شاید آج ۷۱ سال بعد ہم زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں جب اسلام پسند اور مغرب زدہ سیکولر لبرل طبقات کے مابین فکری کشمکش شدت اختیار کر چکی ہے۔ علامہ نے اس کتاب میں سقراطی طرز اختیار کرتے ہوئے سوال جواب کے ذریعے اپنی بات قاری کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
علامہ محمد اسد کا پہلا سوال ہے کہ کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟
اس کے جواب میں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ مسلمانوں کی اکثریت اس بات کا جواب ہاں میں دیتی ہے لیکن ان کا اپنا کردار اور عمل اس کی نفی کرتا ہے۔ جس انسان کے قول و عمل میں تفاوت ہو، اس کا زبانی دعوٰی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ جو لوگ واقعی اسلام چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اسلام نافذ کریں اور اپنی شخصیت اور کردار کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔
علامہ محمد اسد کا پہلا سوال ہے کہ کیا ہم واقعی اسلام چاہتے ہیں؟
اس کے جواب میں وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اگرچہ مسلمانوں کی اکثریت اس بات کا جواب ہاں میں دیتی ہے لیکن ان کا اپنا کردار اور عمل اس کی نفی کرتا ہے۔ جس انسان کے قول و عمل میں تفاوت ہو، اس کا زبانی دعوٰی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ جو لوگ واقعی اسلام چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی زندگی میں اسلام نافذ کریں اور اپنی شخصیت اور کردار کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔
اگلا سوال ہے کہ تحریکِ پاکستان کا نعرہ ہی پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ مقرر ہوا ہے۔ لیکن کیا تحریکِ پاکستان کے تمام قائدین اور اہلِ دانش اس دعوے میں مخلص اور سنجیدہ ہیں کہ ان کی جدوجہد کا محرک صرف اور صرف اسلام ہے؟
اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں کہ اگر مطالبۂ پاکستان کا کوئی جواز ہے تو وہ صرف یہ کہ ایک سچی اسلامی مملکت قائم کی جائے، دوسرے لفظوں میں یہاں عملی طور پر اسلامی احکام و شعائر نافذ کئے جائیں۔ یہ مسلمانوں کی ایک غالب اکثریت کا تصورِ پاکستان ہے لیکن مغربی تعلیم یافتہ طبقے کے ایک حصے کا یہ تصور نہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان کا مطلب صرف یہ ہے کہ برِصغیر کے مسلمانوں کو ہندوؤں کے غلبے سے نجات دلائی جائے اور مسلمانوں کے ٖلئے ایسی مملکت قائم کی جائے جہاں انہیں اقتصادی ترقی کے مواقع میسر آ سکیں۔ ان کے نزدیک اسلام کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ جو لوگ یہ سرزمین حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں ان کا مذہب اتفاق سے اسلام ہے۔ ایسے لوگ دراصل مغربی طرزِ فکر کے علاوہ کسی اور طریقے پر سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ ان کا ذہن اس عقیدے کو قبول ہی نہیں کرتا کہ دنیا کے معاشرتی اور سیاسی مسائل خالص مذہبی اصولوں کے تحت حل کئے جا سکتے ہیں۔ انہیں اسلام سے دلچسپی ہوتی ہے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہ اپنی قوم کی روایات میں ثقافتی اقدار کا بھرم رکھا جائے۔
پھر وہ پوچھتے ہیں کہ کیا پاکستان برِصغیر کی اقلیتوں کے مسائل کا حل ہے؟
اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے۔ پاکستان میں بھی ہمیشہ اقلیتیں موجود رہیں گی اور ہندوستان میں بھی۔ یہ مسئلہ پاکستان کے قیام کے مطالبے کا جواز نہیں۔ بمبئ اور مدراس جیسے ہندو اکثریتی صوبوں کے مسلمان بھی قیامِ پاکستان کے ٖلئے اتنے ہی پرجوش اور سرگرم تھے جتنے مسلم اکثریتی صوبوں کے مسلمان، حالانکہ انہیں بخوبی علم تھا کہ ان کے علاقے کبھی پاکستان کا حصہ نہیں بن سکتے۔ وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے اور مسلمان چاہے کسی بھی علاقے میں رہ رہے ہوں، ایک وحدت ایک امت ہیں۔
وہ یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ کچھ لوگوں کو اس بات پر اعتراض ہے کہ دنیا میں کہیں بھی حتٰی کہ اسلامی دنیا میں بھی کہیں مذہب کی بنیاد پر آزادی کی تحریک نہیں چلائی گئی۔
اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہی تو تحریکِ پاکستان کی انفرادیت ہے۔ ہمیں فخر ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں صرف مسلمانانِ برصغیر ہیں جو امتِ واحدہ کے اس تصورکی جستجو میں نکل کھڑے ہوئے جس کی ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی۔ ان کے نزدیک تحریکِ پاکستان میں احیائے اسلام کا ایک زبردست امکان موجود ہے۔ لیکن یہ امکان اس شرط کے ساتھ ہے کہ ہمارے قائدین اور عوام پاکستان کا اصل مقصد اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔
پھر وہ یہ نشاندہی کرتے ہیں کہ ہمارے لیڈر قوم سے خطاب کرتے ہوئے اسلام کا نام تو ضرور لیتے ہیں لیکن اسلام کے لئے وہ ہمیشہ مستقبل کا صیغہ استعمال کرتے ہیں کہ جب پاکستان بن جائے گا تو اسلام بھی آ جائے گا۔ (یاد رہے کہ یہ مضمون پاکستان کے قیام سے محض چند ماہ پہلے لکھا گیا تھا۔)
ان کی رائے میں یہ محض آسان اور لفظی یقین دہانی ہے۔ مسلمانوں کے موجودہ طرزِ فکر اور طرزِ حیات کو اسلامی اصول و ضوابط سے ہم آہنگ کئے بغیر اور اس مقصد کے لئے مناسب تربیت کئے بغیر اس یقین دہانی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان کے حصول کے بعد ہم یکایک خود بخود پکے اور سچے مسلمان بن جائیں گے۔ برصغیر کے مسلمان پاکستان اس لئے بنانا چاہتے ہیں کہ وہ اسلام کو اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایک حقیقت بنا دیں۔ وہ پاکستان اس لئے بنانا چاہتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک شخص سچی اسلامی زندگی گزار سکے۔ اور کسی شخص کے لئے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر زندگی گزارنا ممکن نہیں جب تک پورا معاشرہ شعوری طور پر اسلام کو اپنا ضابطہ اور قانون نہ بنا لے اور کتاب و سنت کے احکامات پر صدقِ دل سے عمل نہ کرے۔
وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اسلام سے وابستہ ہونا ہی ہمارے جداگانہ تشخص کا واحد جواز ہے۔ ہم کوئی نسلی وحدت نہیں۔ ہم کوئی لسانی وحدت بھی نہیں۔ ہم نہ انگریزوں، چینیوں یا عربوں کی طرح ایک قوم ہیں اور نہ ہم کبھی ایسی قوم بن سکتے ہیں۔ اور یہی ایک حقیقت کہ ہم کسی سماجی اور روایتی مفہوم کے مطابق ایک قوم نہیں، ہماری قوت کا ایک بہت بڑا سرچشمہ ہے۔ یہ حقیقت ہمیں یہ شعور عطا کرتی ہے کہ اس پوری زمین پر صرف ہم، بشرطیکہ ہم ایسا چاہیں، ایسا شاندار نظامِ حیات قائم کر سکتے ہیں جس نے چودہ سو سال پہلے عرب میں جنم لیا اور پوری دنیا کو اپنی روشنی سے منور کیا۔ ایسے آزاد مردوں اور عورتوں کی امت جو کسی نسل، رنگ، زبان اور وطن کے حادثاتی، اتفاقی اور پیدائشی بندھنوں سے وجود میں نہیں آئی تھی، بلکہ ایک مشترک عقیدے اور نصب العین کی بنیاد پر متحد ہوئی تھی۔
اگر اسلام ہمارے لئے مقصد، مشن اور نصب العین نہیں ہے اور ہمارے لئے محض ایک عادت ایک رسم اور ایک ثقافتی ٹھپہ بن کر رہ گیا ہے تو پھر یہ تو ممکن ہے کہ ہم اپنی تعداد کے بل بوتے پر پاکستان حاصل کر لیں لیکن یہ پاکستان اس پاکستان کے برابر نہیں ہو گا جسے حاصل کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے ہمیں بے پناہ امکانات سے نوازا ہے۔ ایسا پاکستان دنیا کی قومی ریاستوں کے ہجوم میں ایک اور قومی ریاست سے زیادہ کچھ نہ ہو گا۔ بہت سی ریاستوں سے اچھا، بہت سی ریاستوں سے برا۔ مسلم عوام کے تحت الشعور میں بسا ہوا خواب کیا تھا؟ ایک ایسی مملکت کا قیام جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور سنت کو ہر قدم پر، ہر پہلو سے حقیقت کا روپ پہنایا جا سکے۔
ہماری قوم کو اخلاقی و معاشرتی زوال کے اس گڑھے سے نکلنا ہو گا، جس میں وہ اس وقت موجود ہے۔ ہمارا موجودہ اخلاقی قد و قامت اس معیار سے بہت نیچے ہے جس کا تقاضا اسلام ہم سے کرتا ہے۔ تہذیب کی روح کا ہم میں فقدان ہے۔ آرام طلبی اور تن آسانی سے ہمیں محبت ہے۔ ایسے حالات میں ہم کیونکر ایک سچے اسلامی ملک پاکستان کے شایانِ شان شہری بن سکتے ہیں؟ جب ہمارے دل میں حبِ الٰہی اور خوفِ خدا ہی موجود نہ ہو تو ہم کیونکر حکمِ الٰہی کو اپنے معاشرتی نظام کا دستور بنا سکتے ہیں؟ اگر مسلمان اپنے طور طریقے اور اپنے اخلاقی معیار فوری طور پر تبدیل نہیں کریں گے اور ہر قدم پر شریعت کے احکامات کی خلاف ورزی کی روش ترک نہیں کریں گے تو یقین جانیے کہ نظریۂ پاکستان سے اس کی روح غائب ہو جائے گی اور یوں پاکستان کو اسلام کی جدید تاریخ میں جو منفرد مقام حاصل ہونے والا ہے، وہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔ کسی قوم کی سیاسی و معاشی حالت بہتر نہیں ہو سکتی جب تک اس کی مجموعی اخلاقی حالت بھی بلند نہ ہو۔
إِنَّ ٱللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِہِمۡ
بے شک الله تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتے جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔ (الرعد: ۱۱)