زمانہ کتنا خراب ہو گیا ہے۔ اس زمانے میں تو ہماری اقدار کا جنازہ ہی نکل گیا ہے۔ نئی نسل کتنی غلط راہ پر چل نکلی ہے۔ ہمارا زمانہ اس سے بہت بہتر تھا۔ یہ جنگل کا معاشرہ ہے جس میں جنگل کا قانون ہی چلتا ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اس معاشرے میں شرافت کے ساتھ گزارا کرنا ممکن نہیں۔
مجھے یقین ہے کہ یہ جملے یا اس سے ملتے جلتے جملے آپ نے بارہا سنے ہوں گے۔ زمانے کو برا کہنے کا رواج ہمارے ہاں بہت عام ہے ۔ شاید اکثر لوگ نہیں جانتے کہ ایسا کہنے سے اللہ تعالٰی نے ہمیں منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں ، میرے ہی ہاتھ میں رات اور دن ہیں۔ (صحیح بخاری: ۷۸/۲۰۵، صحیح مسلم: ۴۰/۱ ، سنن ابی داؤد: ۴۳/۵۰۲)
میں نے نوٹ کیا ہے کہ ہم لوگوں کا سارا زور شکوے کرنے اور دوسروں کو برا بھلاکہنے پر ہوتا ہے اور ہم اسی میں سارا وقت گزار دیتے ہیں۔ ہم اس بات پر غور ہی نہیں کرتے اور توجہ ہی نہیں دیتے کہ کہ ہمارا معاشرہ آج اس حال کو پہنچا ہے تو اس کی کیا وجوہات ہیں؟ اور اسے بہتر بنانے کے لئے ہم کیا کر سکتے ہیں؟
اب ذرا اپنے معاشرے پر نظر دوڑائیں۔ اور معاشرے سے زیادہ خود اپنے گریبان میں جھانکیں۔غور کریں کہ ہمارے نزدیک کسی شخص کی کامیابی اور عزت کا معیار کیا ہے؟ کیا ہم اس شخص کی قدر کرتے ہیں جس کے پاس علم ہے؟ کیا ہم اس شخص کی عزت کرتے ہیں جو بہت اچھے اخلاق والا ہے؟ اور کیا ہم اس شخص کو کامیاب سمجھتے ہیں جوپرہیز گار ہے، نماز روزے کا پابند ہے اور دین پر چلنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے؟ کیا ہمارے نزدیک وہ شخص کامیاب اور عزت دار ہے جو اعلٰی اخلاق اور بلند کردار کا حامل ہے؟ یا پھر ہم اس شخص کو کامیاب سمجھتے ہیں جو بہت پیسے والا ہے؟ جو ایک بڑے بنگلے میں رہتا ہے اور بڑی گاڑیوں میں گھومتا ہے؟کیا ہم اس شخص کی عزت کرتے ہیں جو کسی بھی وجہ سے مشہور ہو گیا ہے؟ اور کیا ہم اس شخص کے سامنے مودب ہو جاتے ہیں جو ایک بڑے رتبے پر فائز ہے؟ چاہے یہ دولت والے، شہرت والے، رتبے والے لوگوں کا اپنا اخلاق و کردار کیسا بھی ہو؟ میرا خیال ہے کہ ان سوالات کے جواب جاننا مشکل نہیں۔
ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں۔ جب ہم نے اپنے معاشرے میں کامیابی اور عزت کا معیار ہی امارت، شہرت اور رتبے کو بنا لیا ہے تو ظاہر ہے لوگ ان چیزوں کے پیچھے ہی بھاگیں گے اور انہیں حاصل کرنے غلط راستوں پر چلنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اس ضمن میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ معاشرے کی عمومی پستی کی وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔جیسے جیسے ہمارے معاشرے میں تعلیم کا فروغ ہوتا جائے گا، ہمارا اخلاق و کردار بھی بہتر ہوتا جائے گا۔ میرے نزدیک یہ رائے ٹھیک نہیں۔ صرف تعلیم کا فروغ ہمارے ادنی ٰاخلاق وکردارکا علاج نہیں۔ تعلیم عام ہونے سے کرپشن، بدعنوانی، دھوکہ دہی، رشوت ستانی اور اقربا پروری میں کمی نہیں آئے گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ان منکرات میں ناخواندہ لوگوں سے زیادہ ملوث رہے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں تربیت کی بھی اشد ضروت ہے۔ ہمیں ایسے استادوں کی ضرورت ہے جو طلباء کو صرف تعلیم ہی نہ دیں بلکہ ان کےکردار کی بھی تعمیر کریں۔
ہر شخص کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ ہر کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں۔ جب ہم نے اپنے معاشرے میں کامیابی اور عزت کا معیار ہی امارت، شہرت اور رتبے کو بنا لیا ہے تو ظاہر ہے لوگ ان چیزوں کے پیچھے ہی بھاگیں گے اور انہیں حاصل کرنے غلط راستوں پر چلنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ اس ضمن میں ایک رائے یہ بھی ہے کہ معاشرے کی عمومی پستی کی وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔جیسے جیسے ہمارے معاشرے میں تعلیم کا فروغ ہوتا جائے گا، ہمارا اخلاق و کردار بھی بہتر ہوتا جائے گا۔ میرے نزدیک یہ رائے ٹھیک نہیں۔ صرف تعلیم کا فروغ ہمارے ادنی ٰاخلاق وکردارکا علاج نہیں۔ تعلیم عام ہونے سے کرپشن، بدعنوانی، دھوکہ دہی، رشوت ستانی اور اقربا پروری میں کمی نہیں آئے گی۔ تاریخ شاہد ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ان منکرات میں ناخواندہ لوگوں سے زیادہ ملوث رہے ہیں۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیں تربیت کی بھی اشد ضروت ہے۔ ہمیں ایسے استادوں کی ضرورت ہے جو طلباء کو صرف تعلیم ہی نہ دیں بلکہ ان کےکردار کی بھی تعمیر کریں۔
معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کے لئے ہمیں اپنے معیارات ،ترجیحات اور رویووں کو بدلنا ہو گا۔ ہمیں کامیابی کا معیار علم، اخلاق، ایمانداری اور حسنِ کردار کو بنانا ہو گا۔ اور عزت صرف ان لوگوں کو دینی ہو گی جو ان اعلٰی اقدار اور خصوصیات کے حامل ہوں۔